ھمارے مشاہیر جتنے بھی تھے یا لمحہء موجود میں ھیں؛سبھی اپنی اپنی قوم کے جوانوں کی صلاحیتوں کے معترف ہیں وہ تو یہاں تک بھی کہہ دیتے ہیں کہ”محبت مجھے ان جوانوں سے ھے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند”مراد یہ ھے کہ پرعزم،مشکل پسند،جدت پسنداور انقلابی سوچ رکھنے والے جوانوں کو ھمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ھے۔اس وقت ھمارے پاس مریم،بلاول اور انھی جیسے بہت سے جوان ھیں جن کے ہاتھ میں ھماری قیادت کرنے کا علم ھے۔فکری سطح پر بلاول بھٹو عالمی لیول پر دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ھے تو عملی حوالے سے محترمہ مریم نواز شریف اچھوتے انداز میں نئے نئے اقدامات کر کے پنجاب کی سطح پر وہ کام کر رھی ھیں ان کاموں کے بارے میں اج تک کسی سیاسی راہنما نے سوچا تک بھی نہیں تھا۔ھمارے شہر گندگیوں میں ڈھلتے جا رھے تھے،چہار سو کوڑا کرکٹ اور بدبویں اور ماحولیاتی آلودگی کا راج تھا۔ائے روز اس الودگی میں اضافہ ھی ھو رہا تھا،صوبے کی تمام بلدیات بے بس ھو چکی تھیں، اداروں میں بھرتی کیے گئے سینٹری ورکرز نکمے اور کام چور بن چکے تھے۔ھماری گلیاں،ھمارے محلے،ھماری بستیاں اور ھماری شاہراہں گندگی سے اٹی رھتی تھیں۔مگر ھمارے صوبے کی قیادت نے نئی سوچ اور فکر سے ایک ایسا ٹھیکیداری نظام متعارف کرایا کہ میرے شہر اور میرے گاوں دنوں میں صاف ستھرے ھو گئے یہ سب کریڈٹ صوبے کی وزیر اعلی کو جاتا ھے۔شاباش۔اسی طرح کورٹ میرج،اپنا گھر سکیم،ضلعی انتظامیہ میں فعال لوگوں کی تعیناتی وغیرہ جیسے لاتعداد اقدامات کے عقب میں محترمہ مریم صاحبہ کا ویژن ھی دکھائی دیتا ھے۔

اس ویژن کو دیکھتے ہوئے ھم وزیر اعلی پنجاب کی توجہ اس جانب بھی مبذول کرانا مناسب سمجھتے ہیں کہ وہ صوبے میں سیاحت اور شجر کاری کو انقلابی انداز میں فروغ دیں۔شجر کاری کے ٹھیکیداری نظام کو اگر اسی طرح متعارف کرائے جائے جس "صاف ستھرا پنجاب”میں متعارف کرایا گیا ھے تو مہینوں میں نہیں دنوں میں سارا پنجاب "گرین” ھو جائے گا،نہ صرف نوجوانوں کو روز گار میسر آئیں گے بلک سر سبز دھرتی ھمارے سماجی اور نفسیاتی رویوں کو بھی سرسبز کر دے گی،بے پناہ درخت ماحولیاتی الودگی کا خاتمہ کریں گے اور ھماری معیشت کو بھی بہتر کرنے میں معاونت کریں گے۔اگر نہروں اور شاہراہوں کے کنارے "پلانٹیشن”کے لیے کسی قانونی معاہدے کے تحت لوگوں کو طویل عرصے کے لیے کنارون کی زمیں پٹے پر دے دی جائے اور شرط صرف پھل دار درخت لگانے کی ھو تو چند ھے برسوں میں ملک پھلوں میں خود کفیل ہو جائے گا۔ یہی صورت حال صوبے میں سیاحت کے شعبے میں بھی پیدا کی جاسکتی ھے۔ پنجاب میں دو بڑے صحرا: تھل(سات اضلاع کو محیط ھے) اور چولستان( روہی) ھیں۔ یہاں سیاحوں کی دلچسپی کا ماحول بنا کر نہ صرف تفریح کا ماحول پیدا کیا جاسکتا ھے بلکہ معاشی سر گرمیوں کو بھی فروغ دیا جاسکتا ھے اور اپنے صحراوں کو محفوظ بھی کیا جا سکتا ھے۔ فورٹ منرو بھی پنجاب کا حصہ ھے یہ سرد اورفطرتی حسن سے مالا مال ھے مگر ریاستی عدم توجہی کی وجہ سے تباہ حال ھے،وہاں نہ پانی ھوتا ھے نہ بجلی اور نہ ھی اج تک وہاں شجرکاری کی گئی ھے ۔اسے بھی مری ہلز جیسا بنایا جاسکتا ھے۔ پنجاپ میں اثار قدیمہ کی حالت بھی مخدوش ھے۔بہاولپور سے ملحقہ علاقوں اور چولستان میں کئی تاریخی قلعے اور عمارات ھیں جو اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ اگر انھیں بحال کیا جائے تو ٹورازم کی کئی راہیں نکل سکتی ھیں۔ یہ سب کام صرف مریم صاحبہ ھی کر سکتی ہیں کیونکہ وہ ایک عزم لے کر میدان میں اتری ھیں اور ان کی سوچیں نئے ویژن سے عبارت ھیں۔

