گزشتہ دنوں خیبرپختونخواہ کے سیاحتی مقام بٹگرام میں پہاڑی علاقے میں ایک خودساختہ ڈولی لفٹ کی تار ٹوٹ جانے سے معلق ہو کر رہ گئی جس پر 6 بچے جو قریبی مقامی سکول جارہے تھے اور انکے ساتھ 2 دیگر افراد اساتذہ یا مقامی لوگ تھے پھنس کررہ گئیے ، جس کی خبر سوشل میڈیا پر آناً فانناً ملک بھر میں پھیل گئی ، تو ساتھ میں مین سٹریم میڈیا اور بڑے چینلز کی ہیڈ لائن کا حصہ بننے لگی ، صورتحال کو جانچتے ہوئے ملک بھر سے ایک دعا نکلنے لگی یا اللہ خیر ۔ سوشل میڈیا بچوں اور ڈولی میں پھنسے بچوں اور افراد کے لییے دعایا کلمات سے بھر گئیے ۔ عوام کی نظریں سوشل میڈیا پر لگی رہیں اور بٹگرام سے کوسوں دور علاقہ تھل میں بھی ہر چوک چوراہے بر بٹگرام موضوع گفتگو رہا۔ بعدازاں فوج کے ہیلی کاپٹرز نے ریسکیو اپریشن کے لییے اپنی توانائیاں صرف کیں اور ڈولی میں موجود بچوں تک پانی ، کھانے کی اشیا پہنچانے میں کامیاب ہو گئے جس سے یقیناً پھنسے بچوں میں حوصلہ بلند ہوا ہو گا کہ اب نکل آئیں گے ۔ شام تک اداروں نے اپنی کوششیں جاری رکھیں اور میڈیا ذرائع کے مطابق دو بچوں کو بحفاظت ڈولی سے نکال لیا گیا اور پھر اندھیرا پھیل جانے کے باعث ہیلی کاپٹر اپریشن بندکردیا گیا ۔ اور رات گئیے خبریں موصول ہوئیں کہ تمام افراد کو مقامی افراد کی مدد سے بحفاظت اتار لیا گیا ہے ، لیکن صبح سویرے جو سوشل میڈیا کو دیکھا تو ایک نئی بحث نے جنم لے رکھا تھا جس کے مطابق سوشل میڈیا صارفین نے اداروں کو تنقید کا نشانہ بنارکھا تھا کہ سارا دن میں دو بچوں کو ریسکیو کیا گیا ۔ بہرحال وہاں وہی جانتے ہیں جو وہاں موجود تھے یا جن پر بیت رہی تھی ، غور کریں ان علاقوں میں سہولیات کا جہاں مقامی افراد کو بچوں کی تعلیم کے لئیے اپنی مدد آپ کے تحت پہاڑوں کے درمیان روزانہ کی بنیاد پر ایسی ہی ڈولیوں پر لٹک کر سکول و روزمرہ کی اشیا خریدنے کے لییے آنا پڑتا ہے۔ خوبصورت بات جو اسی سوشل میڈیا ذرایع سے پتا چلا کہ بٹگرام چیئرلفٹ میں پھنسے میٹرک کے 3 طالب علموں کا نویں جماعت کا نتیجہ اسی وقت موصول ہوا جب وہ اسی لفٹ پر پھنسے ہوئے تھے ۔جن۔میں عطا اللہ ولد کفایت اللہ شاہ 442 نمبر لے کر کامیاب ہوئے جبکہ نیاز محمد ولد عمر زیب نے 412 نمبرز لیے۔ اُسامہ ولد محمد شریف نے 391 نمبر لے کر نویں جماعت میں کامیابی حاصل کی۔تینوں طالب علموں کا تعلق گورنمنٹ ہائی اسکول بٹنگی پاشتو الائی بٹگرام سے ہے اور یہ میٹرک میں زیر تعلیم ہیں۔
ایسا ہی علاقہ تھل کے مغرب میں شیر دریا سندھ کے نشیب و بیٹ کی مقامی آبادی کا دریا کے آرپار نے جانے کے لئیے ہتکنڈوں سے بنی ڈولیاں/کشتیاں استعمال ہوتی رہی ہیں۔ ایسی ہی ایک جھاڑی نما پودوں ہتکنڈوں سے بنی کشتی کے زریعے دریا کے پار جانے کا موقع ملا ہے ، موضع تھند نشیب خورد کے پار ہمارے خالہ زاد کزن حافظ منظور حسین کانجو رہائش پزیر تھے اور ہم نے انکے ہاں جانا تھا ۔ لیہ سے بزریعہ موٹرسائیکل ہم دریا چھتا کے مشرقی کنارے پہنچے اور دریا کے دونوں اطراف بڑے مضبوط درختوں کے تنوں کے ساتھ ایک مضبوط لمبی سے رسی باندھی گئی تھی اور نیچے ایک سرکنڈوں پر مشتمل دیسی کشتی پر ہمیں بٹھا دیا گیا اور مقامی شخص نے رسی کو کھینچنا شروع کردیا جو پانی کو چیرتی ہوئی دوسرے کنارے پہنچ گئی ۔ اس دوران دریا میں ہمیں تو ہچکولے بھی آیے اور ڈر بھی شدید لگا لیکن مقامی افراد نے بتایا کہ ایسی کشتیاں یہاں کثیر تعداد میں ہیں اور مقامی افراد روزمرہ کی بنیاد پر سفر کرتے ہیں۔موجودہ ترقی یافتہ دور میں بھی پہاڑی اور دریائی علاقوں کے رہائشی افراد کو دیسی ڈولیاں بنا کر اپنی ذندگی گزارنی پڑتی ہے۔ کیونکہ 76سالوں میں وعدوں اور سیاسی تبدیلیوں کے علاوہ کوئی ترقی قوم کو۔نصیب نہیں ہوئی ، بٹگرام کی ڈولیاں اور دریا سندھ کی دیسی کشتیاں ایسے ہی أسمانوں میں معلق اور پانی میں تیرتی نظر آتی رہیں گی اور سوشل میڈیا پر عوام ایک دن کے واقع پر شور مچا کر خاموش ہو جائے گی اور پھر مطالع پاکستان میں ہم مشن امپاسبل اپنے بچوں کو پڑھا کر انہیں بتائیں گے ہم نے مشن امپاسبل کو ممکن کیسے بنایا۔۔۔۔۔۔
"These columns/writings of mine were published some time ago in various newspapers, websites, and on my Facebook wall. I am now re-uploading them on my own website.
— Mehr Muhammad Kamran Thind, Layyah”
میرے یہ کالم /تحریر کچھ عرصہ قبل مختلف اخبارات / ویب سائیٹ اور فیس بک وال پر شائع ہوچکے ہیں اب انکو دوبارہ اپنی ویب سائیٹ پر اپلوڈ کررہا ہوں۔ ۔۔مہر محمد کامران تھند لیہ