موجودہ دور میں فصلات کو مختلف بیماریوں سے بچانے کے لییے ذرعی ادویات کا استعمال اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ چونکہ ہمارے کسانوں میں ذیادہ تعداد ان پڑھ یا کم پڑھے لکھی ہے جوکہ دیکھا دیکھی اور سنی سنائی ذہر ادویات کے حصول اور استعمال میں مشغول نظر آتے ہیں۔ کسان ، محکمہ زراعت ، ذرعی ادویات کمپنیز ، سیلز ٹیمیں اور دکانداروں کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے، ہمارے ملک پاکستان میں ستر فی صد آبادی دیہات میں رہائش پزیر ہے اور دیہاتوں میں ذیادہ آبادی کسانوں ، کاشتکاروں اور زمینداروں کی ہے۔ جن میں بچے ، بوڑھے مرد و خواتین شامل ہیں ۔ انہی فصلات سے ہی کسانوں کی خوشحالی ، بچوں کی شادیاں ، گھر مکان کی تعمیر ، روزمرہ کے اخراجات وابستہ ہوتے ہیں۔ہمارا کسان اللہ پر توقع رکھ کر زمین پر محنت کرتا ہے فصل اگنے کے بعد اسکی جڑی بوٹیوں کا تدارک، فصل کی متوازن خوراک کا بندوبست، اسکے علاوہ سردی گرمی کی شدت کو برداشت کرتے ہوئے بروقت پانی ، کھاد کا استعمال کرتا ہے۔ پاکستان کی 76 سالہ تاریخ میں پہلی بار حکومت پاکستان نے شعبہ زراعت پر توجہ مرکوز کی ہے ، امسال محکمہ زراعت توسیع کے ساتھ محکمہ پلانٹ پروٹیکشن و کوالٹی کنٹرول پیسٹ وارننگ ، محکمہ شماریات ، تحصیل و ضلعی انتظامیہ اور ذرعی یونیورسٹیز کے طلباء و طالبات کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ ذرعی ادویات کمپنیز کے نمائندگان بھی فیلڈ میں کسانوں کی راہنمائی میں مصروف عمل ہیں۔ ضلع لیہ میں ڈپٹی کمشنر خالد پرویز کی سربراہی میں مختلف ٹیمیں کسانوں کی فصل کپاس میں نظر آتی ہیں ۔ اس بار کسانوں نے دیکھا کہ سیکرٹریز لیول سے لے کر ڈپٹی کمشنر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ، اسسٹنٹ کمشنرزو ڈپٹی ڈائریکٹر زراعت تک فصلات میں موجود رہے بلکہ کسانوں کو مفید مشورے بھے دیتے رہے ۔ موجودہ دنوں میں کھاد کی قیمتوں میں بے بہا اضافہ اور کھاد کی قلت کا سامنا رہا ہے جس سے کسانوں سے کئیے گئیے وعدے پورے نہیں ہو رہے ۔ مارکیٹ میں یوریا کھاد کی قیمت 4ہزار روپے فی بوری پہنچنے۔سے کسان شدید پریشان ہیں اور اسطرف ضلعی انتظامیہ موئثر کارکردگی نہیں دکھا رہی ، دوسری جانب ڈیزل پٹرول کی قیمتوں نے بھی کاشتکاروں کو متبادل زرائع استعمال کرنے پر اپنے وسائل خرچ کرنے پڑرہے ہیں۔ موجودہ دنوں میں کپاس کی فصل کا سرکاری ریٹ 8500 بھی میسر نہیں ہے بلکہ کپاس 6ہزار سے سات ہزار کچھ سو روپے تک فروخت ہو رہی ہے دوسری اہم ترین فصل تلی کا مارکیٹ ریٹ میں آئے روز اتار چڑھاو بھی کسانوں کو انکی فصلات کا ارزاں نرخ دستیاب نہ ہونا پریشان کن ہیں۔ بڑے عرصہ بعد ہم نے دیکھا کہ محکمہ زراعت کے عملہ کو انکے اصل کام کسان کی راہنمائی پر لگایا گیا جو کہ مستقبل میں جاری رہا تو اس سے زراعت پر مثبت اثرات پڑیں گے۔ لیہ میں شیخ عاشق حسین ڈپٹی ڈائریکٹر زراعت توسیع کا اپنی فیلڈ ٹیم کے دوران کھیتوں میں کپاس کی فصل کا معائنہ کرتے اور مفید مشورے دیتے ہوئے پایا گیا اور کسانوں کے لییے ذرعی ادویات کی دستیابی کے لییے کسان سہولت سنٹر بنوائے گئے ۔۔تحصیل سطح پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر زراعت توسیع لیہ طاہر محمود بھٹی کی سربراہی میں فیلڈ ٹیم کاشتکاروں کی کپاس کی پیسٹ سکاوٹنگ کی مہم زوروں پر رہی گزشتہ ہفتہ انہوں نے اپنی ذرعی ٹیم کے ہمراہ مختلف زرعی سرکل تھل جنڈی ، شاہ پور ، لدھانہ ، کوٹ سلطان ، پہاڑ پور میں ایک مہم کے ساتھ کپاس کی پیسٹ سکاوٹنگ کرتے دکھائی دییے ۔ کاشتکاروں کو سفید مکھی گلابی سنڈی تیلا ، ملی بگ ، تھرپس و دیگر بیماریوں سے کنٹرول بارے مشورے بھی دیتے رہے ۔ اس مہم میں محکمہ زراعت کی سرکل وائز ٹیمیں زراعت آفیسرز فیلڈ اسسٹنت اور انٹرنیز زرعی یونیورسٹی بھی حصہ لیتے رہے ۔ جبکہ محکمہ پیسٹ وارننگ اینڈ کوالٹی کنٹرول ضلع لیہ کے اعجاز احمد قیصرانی اسسٹنٹ ڈائریکٹر بھی کپاس کی فصلات کا معاینہ کے ساتھ ذرعی ادویات کی کوالٹی اور سمپلنگ میں مصروف دکھائی دئیے اور انہوں نے تینوں تحصیلوں میں اپنا عملہ کو متحرک رکھا ، لیہ سے وسیم الرحمن کو گرمی میں بھی کپاس کی فصلات میں کاشتکاروں کے درمیان پایا بلکہ مختلف علاقوں میں کسانوں نے محکمہ زراعت توسیع کے ذرعی افسران جنکا یہ سرکل تھا کو نہین جانتے تھے لیکن وہ پیسٹ وارننگ کے وسیم الرحمن کو پکڑ پکڑ کر کپاس کی فصل کے معائنہ کے لئیے مشورہ طلب کرتے تھے اس سے ثابت ہوتا تھا جیسے یہ فصلات کا معاینہ کرنے ہمہ وقت ان کسانوں کے درمیان رہے ہوں۔کروڑ لعل عیسن میں وقاص الحسن۔ذراعت آفیسر توسیع بھی کافی متحرک نظر آئے اور مختلف چکوک میں کسانوں کی راہنمائی میں نمایاں رہے ۔ اسی طرح تحصیل چوبارہ میں مہر ماجد ڈلو کو بھی تھل کے صحرائی علاقوں میں کپاس کے معائنہ اور کسانوں کی راہنمائی قابل ستائش تھی۔ اسی طرح اگر محکمہ زراعت کے تمام ادارے اور ذراعت آفیسرز کسانوں کی راہنمائی میں مصروف ہو جائیں اور اپنی ڈیوٹی بہتر انداز میں کریں تو کسان۔اس ملک پاکستان کی معیشت میں بہتری لا سکتے ہیں۔ محکمہ زراعت کا کپاس کی فصل پر کردار بارے میں مختلف افراد و کسانوں نے اپنی رائے دی اور بہتر کرنے پر ذور دیا سماجی شخصیت سید عمران علی شاہ نے لکھا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، ہماری معیشت کا زیادہ تر دارومدار زرعی شعبے کی پیداوار پر ہے، جہاں تک کپاس کی فصل کا تعلق ہے، تو اس کا کردار زراعت کے شعبے میں ریڑھ کی ہڈی جیسا ہے، محکمہ زراعت کا سب سے اہم کام زراعت سے وابستہ زمینداروں، کسانوں کو بروقت آگاہی دینا اور ان کی ممکنہ معاونت کرنا ہے، مگر کپاس جیسی اہم فصل کے حوالے سے محکمہ زراعت کا شعبہ نشر و اشاعت زیادہ متحرک نظر نہیں آتا جبکہ ان کے مقابلے میں نجی کمپنیوں اور نجی شعبے سے وابستہ پیشہ ورانہ افراد فیلڈ میں بہت متحرک نظر آتے ہیں وہ کسانوں کو کھاد، بیج سپرے کے موزوں اوقات پر مفصل آگاہی دینے میں مصروف عمل ہیں، محکمہ زراعت کو وقت کے بدلتے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا ہوگا تاکہ کاشتکاروں کو موسمیاتی تبدیلیوں کے نقصان سے بچایا جا سکے….مہر شہباز میلوانہ نے سوشل میڈیا پر کمنٹ کیا کہ لیہ میں محکمہ زراعت ستو پی کے سو رہی ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ لیہ میں کوئی زراعت کا شعبہ ہے. پروفیسر حفیظ اللہ تھند نے لکھا کہ جہاں انتظامیہ حاضر وہاں محکمہ زراعت بھی حاضر۔اپنے دفتروں میں یقینا” حاضر۔ فیلڈ ورک صرف ان کھیتوں تک جو آزمائشی ہیں۔ عام آدمی کے پاس فیلڈ اسسٹنٹ یا دوسرے عملے کو کبھی نہیں دیکھا۔ مجھے عرصہ ہوا کاشتکاری کرتے لیکن مجھے نہیں یاد کبھی محکمہ زراعت کے عملے سے ملاقات ہوئی ہو۔ کسان کو بھی چاھیئے کہ ان سے دفتروں میں جا کے رابطہ کریں۔معین الدین علوی نے لکھا کہ بلاشبہ پاکستان میں زراعت سے بہت سارے لوگ وابستہ ہیں اور ان کا روزگار اس سے جڑاہے۔لیکن کسان کو فائدہ پہنچانے کی بجائے مافیا کو فائدہ پہنچایا جاتاہے جس سے کسان بدحالی کا شکار ہورہے ہیں اور محکمہ زراعت کی کارکردگی فوٹوسیشن اور دفتر تک محدود ہے۔محکمہ زراعت کی عدم توجہی کے باعث کسان مسائل کا شکار ہیں۔محکمہ زراعت کے آفیسران کو چاہئیے کہ فیلڈ آفیسرز کو فیلڈ میں نکالیں اور ان سے روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ طلب کریں تاکہ کسانوں کو ان کے دروازے پر مفید مشورے اور فصلات کے متعلق آگاہی مل سکے۔بہت سارے کسان ایسے ہیں جو تعلیم کی کمی کے باعث وہ پیداوار حاصل نہیں کر پاتے جو ایک پڑھا لکھا کسان حاصل کرتاہے۔جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے کسان اپنی فصل میں خاطر خواہ اضافہ لاسکتے ہیں۔اس کے لیے محکمہ زراعت کو یونین کونسل کی سطح پر آگہی سیمینار منعقد کرنے کی ضرورت ہے اور کسانوں کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے………..
"These columns/writings of mine were published some time ago in various newspapers, websites, and on my Facebook wall. I am now re-uploading them on my own website.
— Mehr Muhammad Kamran Thind, Layyah”
میرے یہ کالم /تحریر کچھ عرصہ قبل مختلف اخبارات / ویب سائیٹ اور فیس بک وال پر شائع ہوچکے ہیں اب انکو دوبارہ اپنی ویب سائیٹ پر اپلوڈ کررہا ہوں۔ ۔۔مہر محمد کامران تھند لیہ