ضلع لیہ کے کسانوں، مزدوروں اور عام لوگوں کے لیے یہ سال ایک اور کڑا امتحان لے کر آیا ہے۔ دریائے سندھ کے سیلابی ریلے نے سینکڑوں دیہات کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، جہاں کھیت اجڑ گئے، مکان ڈھے گئے اور زندگی کا معمول بکھر کر رہ گیا۔ ضلعی انتظامیہ اور ریسکیو اداروں کی رپورٹس کے مطابق سیلابی ریلے سے مجموعی طور پر 47 مواضعات کے 52 ہزار 989 افراد متاثر ہوئے۔ اب تک 20 ریلیف کیمپس اور 14 میڈیکل کیمپس قائم کیے جا چکے ہیں، جہاں 8 ہزار 754 افراد کو علاج فراہم کیا گیا ہے۔ 14 ویٹرنری کیمپس میں 2 ہزار 41 جانوروں کا علاج کیا گیا، جب کہ 1093 افراد اور 215 مویشیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔ اسی طرح 778 افراد کو انخلا کرایا گیا ہے۔ اب تک 16 یونین کونسلیں متاثر ہوئی ہیں اور کل 30 ہزار 285 ایکڑ زرعی رقبہ تباہ ہوا ہے۔ صرف تحصیل کروڑ لعل عیسن میں 487 ایکڑ اور تحصیل لیہ میں 29 ہزار 798 ایکڑ زمین زیرِ آب آئی۔ ریسکیو 1122 کے مطابق ضلع بھر میں 8 ریسکیو اسٹیشنز اور 3 ریونیو پوائنٹس سیلابی صورتحال سے نمٹنے کے لیے فعال ہیں۔ ڈپٹی کمشنر امیرا بیدار کے مطابق لیہ کی کل آبادی 22 لاکھ 23 ہزار 885 نفوس پر مشتمل ہے اور نشیبی بیلٹ میں مکینوں کو محفوظ بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔ خوش قسمتی سے اب تک کوئی جانی نقصان رپورٹ نہیں ہوا تاہم متاثرہ خاندانوں کی بحالی اور ریلیف سرگرمیاں تیز رفتاری سے جاری ہیں۔

سیلابی ریلوں کے ساتھ ساتھ دریائے سندھ کے زمینی کٹاؤ نے بھی تباہی مچائی ہے۔ ہزاروں ایکڑ زرعی زمین پانی میں بہہ گئی، پولیس چوکی، مسجدیں، بستیاں اور سرکاری اسکول تک محفوظ نہ رہ سکے۔ کوٹ سلطان کا گورنمنٹ پرائمری اسکول اور پولیس چیک پوسٹ راکھواں دریا میں گرنے کا منظر کیمرے نے قید تو کر لیا مگر ان مقامی خاندانوں کے زخم کسی تصویر میں سمائے نہیں جا سکتے۔
لیہ کا کسان پہلے ہی مشکلات کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا۔ گندم کی قیمتیں کم ہونے اور فصلوں کی منڈی میں مناسب خریدوفروخت نہ ہونے سے وہ نقصان اٹھا چکا تھا لیکن اب دریائے سندھ کے سیلاب نے اس کی باقی امیدوں پر بھی پانی پھیر دیا ہے۔ نشیبی علاقوں میں گنے کی فصل اجڑ گئی، چاول کی فصل شدید متاثر ہوئی اور کسانوں کے لیے قرضوں اور غربت کا بوجھ مزید بڑھ گیا۔ ہر سال دریائے سندھ کا سیلاب مقامی کسانوں کی فصلوں اور ارمانوں کو اجاڑ دیتا ہے۔ ان کے سامنے ایک ہی سوال ہوتا ہے کہ اب زندگی کیسے چلے گی۔
ہم اکثر ان تمام آفات کو موسمیاتی تغیر کے کھاتے میں ڈال کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اپنی منصوبہ بندی میں بنیادی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ کلائمیٹ چینج کو ایک نئے زاویے سے پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پہاڑی علاقوں میں بادلوں کا پھٹنا اور میدانی علاقوں میں بار بار سیلاب آنا اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ فطرت کے ساتھ ہماری چھیڑ چھاڑ ہمیں بہت مہنگی پڑ رہی ہے۔ اگر فوری اور مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے کل کے چیلنجز مزید سخت اور سنگین ہوں گے۔

این ڈی ایم اے اور ضلعی انتظامیہ کی بروقت سرگرمیاں اپنی جگہ قابلِ تعریف ہیں لیکن یہ سوال بہرحال باقی ہے کہ کیا صرف وقتی ریلیف کافی ہے؟ کیا ہمیں ہر سال یہی منظرنامہ دیکھنا پڑے گا یا کوئی پائیدار منصوبہ بندی بھی سامنے آئے گی؟ لیہ جیسے اضلاع کے لیے مستقل بنیادوں پر فلڈ پروٹیکشن سسٹم، جدید ڈرینیج، مضبوط پشتے اور متاثرین کی معاشی بحالی ناگزیر ہیں۔ بصورتِ دیگر یہ بپھرتے پانی ہر سال ہزاروں خاندانوں کے خواب بہا لے جائیں گے اور تاریخ یہی سوال دہراتی رہے گی کہ کیا ہم نے کچھ سیکھا؟