اس مٹی کو چھوڑنا لازم ہو گیا تھا، جس میں میرے خوابوں کا پہلاعکس بُنا گیا اور وہ گلیاں جہاں میرے جذبوں نے پہلی جنبش لی۔ مگر اب وہ سب کچھ اجنبی سا لگتا تھا۔ میرے احساسات ان ہی گلیوں میں ریزہ ریزہ ہو چکے تھے۔ وہ خواب، جو ابھی آنکھوں کی دہلیز پر نمودار بھی نہیں ہوئے تھے، کچل دیے گئے۔ معصوم آنکھوں کی چمک سے جو روشنی پھوٹ سکتی تھی، وہ اندھوں کی بستی میں جرم بن گئی تھی۔
مجھے زبردستی کچی نیند سے جگا دیا گیا، جیسے کسی بچے کوماں کی گود سےاٹھا کر سنگین حقیقت کے حوالے کر دیا گیا ہو۔ میری نیم وا آنکھوں میں جوں ہی کسی خواب کا ہالہ ابھرتا، سماج کی آہنی دیواریں میرے سامنے آ کھڑی ہوتیں، نتیجتاً وہ ہالہ عکس بننے سے پہلے بکھر جاتا۔ میں ہر رات خواب دیکھنے کی کوشش کرتا مگر ہر بار ناکامی کا سامنا رہتا۔ پھر میں نے فیصلہ کر لیاکہ اب کسی خواب کو آنکھوں کے قریب نہیں بھٹکنے دینا۔میں نے آنکھوں کو بیدار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی، بس اس ڈر سے کہ کہیں پھر کوئی خواب نہ پلنے لگے۔ مگر ہونی کو کب ٹالا جا سکتا ہے؟ کچھ خواب ایسے ہوتے ہیں جو انسان کے اندر سانس لیتے ہیں۔ وہ خواہشیں جو دفن کی جاتی ہیں، وقت آنے پر خود ہی قبریں توڑ کر نکل آتی ہیں۔
آخر کار میں اس مقام پر آ کھڑا ہوا جہاں خاموشی بھی شور کرنے لگی۔ روایتوں کے پتھرائے ہوئے بُت میرے سامنے تھے۔ ان بُتوں کو چیلنج کرنا سماج کے غیظ و غضب کو دعوت دینا اور اپنی بقا کو خطرے میں ڈالنا تھا۔ مگر میرے خواب محض خواہشات نہیں تھے، وہ میرے وجود کا اثبات تھے۔اب یہ خواب فقط دیکھنے کا کوئی منظر نہیں رہے بل کہ جینے کی ضد بن چکے تھے۔ میں جانتا تھا کہ ان کی تعبیر کے راستے کانٹوں سے بھرے ہوں گے، ہر قدم پر تمسخر، تضحیک، تردید کا سامنا ہوگا۔ مجھے لگا اگر خوابوں کو دفنا دیاتو میرا اپنا وجود بھی مٹی میں دفن ہو جائے گا۔
میں نے پیٹھ پھیری، ان راستوں کو چھوڑا جن پر میرے بچپن کی چھاپ باقی تھی، اور ان سمتوں کا انتخاب کیا جہاں خوابوں کو سانس لینے کی اجازت ہو۔ یہ ہجرت آسان نہ تھی، لیکن وہ جگہ چھوڑنا ضروری تھا جہاں خواب جرم بن چکے تھے، اور جذبے گناہ۔نئے شہر کا انتخاب کیا — ایک ایسا شہر جہاں تعبیر تو میسر نہ تھی، مگریہ اطمینان ضرور تھا کہ یہاں میرے خوابوں سے کسی کو سروکار نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ وہ شہر اور میں ایک دوسرے کے لیے اجنبی تھے۔ مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس شہر میں برسوں کوئی خواب نہ آیا۔نہ کھلی آنکھ کے پردے پر کوئی عکس نمودار ہوا۔ وقت گزرتا گیا، یہاں تک کہ ایک دن پھر ایک خواب نے آنکھوں میں دستک دی۔
میں سہم گیا۔ اگر یہ خواب بھی بکھر گیا تو شاید میں بھی مکمل طور پر بکھر جاؤں۔ اور ایسا ہی ہوا — خواب ایک بار پھر پاش پاش ہو گیا، مگر اس بار وجہ سماج کی آہنی دیواریں نہیں تھیں، بل کہ خواب کے منظر کی اپنی ثقالت تھی۔وہ خواب اپنے منظر کی خوب صورتی، کشش اور چمک سے ٹوٹنے لگا۔یوں محسوس ہوا جیسے خواب کے ہر ٹکڑے کے ساتھ میں خود بھی ٹوٹ رہا ہوں۔ اب میں سوچنے لگا ہوں کہ ان ٹوٹے خوابوں پر نوحہ خوانی کرنے کے بجائے، اس شہر کو بھی چھوڑ دوں — وہ شہر جہاں برسوں نہ آنکھ جھپکی، نہ خواب آیا۔ اور جب آیا، تو انجام پھر وہی نکلا۔پھر خیال آیا میں کتنے شہر بدلوں گا؟
اب میں کسی اور مقام کی جانب رُخ کرنے کے بجائے، اپنی ذات میں سمٹنے کی کوشش میں ہوں۔ میں چاہتا ہوں خود کو اپنے اندر چھپا لوں — اس مقام پر جہاں نہ سماج کی نظر پہنچے، نہ کوئی خواب آنکھ کے پردے پر جھلک دکھا سکے۔