حکومت کی اولین ذمہ داریوں میں صحت کی سہولیات اولین ترجیحات میں دنیا بھر کی حکومتوں میں شامل ہے لیکن پاکستان میں بدقسمتی سے پنجاب ایسے بڑے صوبے کے بعد ڈور جب سے 50 سال سے حکمرانی کرنے والے مسلم لیگ نون کے پاس اس انداز سے ائی ہے کہ انہیں کسی قسم کی اپوزیشن کا سامنا نہیں ہے وہ جو فیصلے کرنا چاہیں اپنے من مرضی سے کر سکتے ہیں اور کر رہے ہیں اگر کوئی اواز بھی اٹھائے تو اسے دبا دیا جاتا ہے چاہے اس کے لیے کسی بھی شکل میں ان پر دباؤ ڈالنا پڑے ان کے خلاف کسی قسم کی کاروائی کرنی پڑے اور کر گزرتے ہیں یوں ایک فیصلہ بنیادی مراکز صحت کو پہلے لاکھوں روپے خرچ کر کے انہیں مریم نواز کلینک کا نام دے کر رینویٹ کیا گیا ان کی نوک پلک درست کی گئی اور پھر نامعلوم کس پالیسی کے تحت اور کس طرح ایک اپنی کمیٹی ترتیب دے کر اپنے ہی من پسند افراد کو دے دیے گئے ضلع لیہ میں بھی پنجاب کے 150 بنیادی مراکز صحت کی طرح تین مراکز صحت دیے گئے ہیں جن کو چھ لاکھ سے لے کر اٹھ لاکھ روپے ماہانہ حکومتی سبسڈی بھی دی جاتی ہے وہاں سے سرکاری طبی سٹاف نکال کر انہیں دور دراز مقامات پر تعینات کر دیا گیا یہ الگ داستان ہے کہ ان کے ساتھ کیا گزری لیکن جنہوں نے یہ مراکز لیے وہ ایک کمرشل بنیاد بنتی ہے انہوں نے اپنی پسند ناپسند پر کوالیفائیڈ نان کوالیفائیڈ کم تنخواہ میں طبی سٹاف تعینات کیا ہے اور ان خوبصورت بہترین عمارتوں کے اراضی سرکاری بنائے گئے رہائشی بلاک اور دیگر انفراسٹرکچر کو استعمال میں لاتے ہوئے بہتر انداز میں چلا رہے ہیں لیکن سفر کون کر رہا ہے وہ عام ادمی کیونکہ نہ وہ مفت ٹیسٹ کرا سکتا ہے نہ الٹراساؤنڈ نہ دیگر کلینیکل سہولیات بلکہ ادویات بھی محدود طور پر ان کے پاس موجود ہیں اور ایک ڈاکٹر تمام امراض کے لیے تشخیص کرنے میں مہارت نہیں رکھتا اور اکثر بنیادی مراک صحت میں ایک ایک ڈاکٹر کام کر رہے ہیں جو ضلع لیہ کے ان اؤٹ سورس علاقوں سے اب پھر سرکاری ہسپتالوں تک وہ مریض اتے ہیں جہاں ان ہسپتالوں پر مزید بوجھ بڑھ گیا ہے جہاں پہلے بھی ناکافی ادویات اور ناکافی طبی عملہ موجود ہے یہی وجہ ہے کہ ایک ہی ڈی ایچ کیو ہسپتال سے اکثر مریض کئی کئی دن بنا ڈاکٹر کو دکھایا خالی واپس لوٹ جاتے ہیں جن کے پاس سفارش نہیں ہوتی وہ تو دکھائی نہیں پاتے پھر سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹرز نہ تو وقت پر اتے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس ادویات موجود ہیں موجودہ معاشی بدحالی میں ہسپتالوں کی صورتحال بھی اس قدر دگرگوں ہے کہ کلینیکل ٹیسٹوں سے لے کر اپریشن اور ادویات تک مریض باہر سے لاتے ہیں حکومت اپنی اس ذمہ داری سے بھی ہاتھ کھڑے کر چکی ہے جب ملک میں معاشی بدحالی کے دور میں عوام غربت کی لکیر سے نیچے تیزی سے گر رہی ہے وہاں وہ اب علاج جیسی بنیادی سہولت سے بھی محروم ہو چکی ہے اسے دوبارہ اگر ری وزٹ کیا جائے اور سخت مانیٹرنگ پالیسی ترتیب دے کر ان سرکاری ہسپتالوں کو ہی بہتر بنا دیا جائے تو پھر وہ عام ادمی جو باہر سے علاج کرانے کی سکت نہیں رکھتا وہ ہسپتالوں سے استفادہ حاصل کر سکے گاآؤٹ سورسنگ کی اصل صورتحال سرکاری اعداد و شمارپنجاب حکومت نے 150 BHUs آؤٹ سورس کرنے کا عمل مکمل کیا ہے، جنہیں ‘Maryam Nawaz Health Clinics’ کے نام سے منظم کیا گیا ہے۔ یہ اقدام خصوصاً غیر فعال اور بنیادی سہولتوں سے محروم مراکز کو فعال بنانے کے لیے اٹھایا گیا۔ ان 150 میں سے ضلع لیہ میں 3 مراکز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر اضلاع میں بھی متعدد مراکز آؤٹ سورس کیے گئے ہیں جیسے لاہور (9)، راولپنڈی (7)، میانوالی، بہاولپور، گوجرانوالہ وغیرہ ۔
پنجاب میں تقریباً 2,502 BHUs اور 316 RHCs موجود ہیں۔ یعنی تقریباً 6% BHUs (150 میں سے) اس آؤٹ سورسنگ پروجیکٹ کا حصہ ہیں .RHCs کی بہتری کے ضمن م 225 مراکز کو جدید کلینک میں تبدیل کیا گیا ہے، جہاں مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے اور یہ مراکز 24 گھنٹے فعال ہیں .
عوام کو درپیش مشکلات ایک نیا زاویہسرکاری مفت خدمات کی کمی آؤٹ سورس مراکز میں اب ادویات یا ٹیسٹ مفت فراہم نہیں کیے جاتے۔ مریضوں کو نجی کنٹریکٹرز پر انحصار کرنا پڑتا ہے، جو خاص کر غریب طبقات کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ اخراجات میں اضافہ ہو چکا ہے حکومت اس رقم سے بھی مریضوں کی بہتر خدمات بہتر طبی ضروریات پوری کر سکتی تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا محض اپنے نام کے کلینک دے کر شاید وہ کوئی سیاسی فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں اس سے اصل عام ادمی علاج ایسی بنیادی سہولت سے محروم ہوتا جا رہا ہےماہانہ ایک مقررہ معاوضہ (مثلاً تقريباً 690,000–800,000 روپے) نجی ڈاکٹرز کو دیا جاتا ہے، لیکن مریضوں سے زیادہ بل لیا جا سکتا ہے، خاص طور پر اگر سرکاری ادویات دستیاب نہ ہوں ۔ مقامی رابطہ اور اعتماد میں کمی کی فضا برقرار ہے اور بنیادی مراکز صحت جو فرسٹ اکائی تھے طبی سہولیات کی اس کے لیے شہریوں میں شدید بے چینی اور غربت کی وجہ سے علاج کے اس بنیادی مرکز تک جانے سے جہاں اب بچت کے لیے نان کوالیفائیڈ عملہ بھی تعینات کیا گیا ہے اور ایک ہی ڈاکٹر تمام اقسام کی امراض کو نہیں دیکھ سکتا اس لیے مریض اتنا استفادہ حاصل نہیں کر سکتےاگر مراکز مقامی ڈاکٹرز یا عملے کو دیے جاتے، تو مریضوں کے ساتھ تعلق مضبوط رہتا۔ مگر اب باہر سے آنے والے نجی عملہ سے نہ تو رابطہ آسان ہے، نہ اعتماد، اور یہ عوام کو غیر محفوظ محسوس کرتا ہے۔ملازمتوں کا اثر پڑا ہے اور سرکاری تعینات کوالیفائیڈ عملے کی بجائے من پسند اور تھوڑے مشاہرے پر طبی سٹاف تعینات کیا گیا ہے جو اپنی خدمات اس طرح تو بہتر طور پر سرانجام دے رہا ہے کہ پرائیویٹ ہونے کی وجہ سے وہ ڈیوٹی اپنے پورے وقت میں دے رہے ہیں لیکن ان کی پیشہ وارانہ صلاحیت بہتر نہ ہونے کی بنا پر مریض استفادہ حاصل نہیں کر سکتےسرکاری یا غیر مستقل ہیلتھ ورکرز کی صورتحال خطرے میں ہے،کئی کو منتقل کیا گیا یا عارضی رکھا گیا، اور مستقل ملازمتوں کا مستقبل غیر یقینی ہے یہاں سے شفٹ کیے گئے ڈاکٹرز پیرامیڈکس کو دور دراز علاقوں میں تعینات کرنے سے بھی شدید مشکلات کا سامنا پیش ا رہا ہے یا تو انہیں گولڈن ہینڈ شیک کے تحت ملازمت سے باہر کیا جاتا یا پھر گھر کے نزدیک ہی انہیں ملازمت فراہم کی جاتی تاکہ وہ اپنی کم تنخواہ میں کنبے کی کفالت تو کر سکیں یہ ان کے لیے ایک نئی مصیبت کھڑی ہو گئی ہے ۔
غیر شفافیت اور نگرانی کی کمی اس میں واضح پالیسی ترتیب نہیں دی گئی جلد بازی اور حکومتی دھونس کی وجہ سے صرف اپنوں کو نوازتے ہوئے من پسند افراد کو یہ مراکز صحت دے دیے گئے ہیں جس سے ان مراکز صحت سے وہ اپنی من مرضی کرتے ہوئے اس کے اراضی کا استعمال ان کے رہائشی بلاک کا استعمال اور ہسپتال میں موجود انفراسٹرکچر کو اپنی بہتری اور کمرشل سطح کے کاموں سے فوائد حاصل کر رہے ہیں لیکن اس میں سفر مریض کا ہو رہا ہے جنہیں بہتر طبی سہولیات میسر نہیں اور نہ ہی اعلی پیمانے کی معیاری ادویات میسر ہیں اگرچہ سرکاری ذرائع سے ماہانہ یا ہفتہ وار رپورٹس کا وعدہ کیا گیا ہے، لیکن عمل درآمد میں شفافیت اور مستقل نگرانی کا فقدان ہے، جو معیار کم ہونے کا باعث بن سکتا ہے ۔
ان کی مانیٹرنگ کا میکنزم ایسے ہے جیسے تعلیم میں کبھی بھی نہیں دیکھا گیا کہ وہ کیسے چل رہے ہیں پنجاب حکومت کا مانیٹرنگ سٹاف اتنا کم ہے کہ وہ دیکھ بھال نہیں کرتا پھر وہ حکومت میں ہونے کی وجہ سے بھی لاپرواہی برت رہے ہیں کہ انہیں اب ان سے کیا غرض ہے وہ کیوں کر عام ادمی کی فلاح و بہبود کو مد نظر رکھیں گے وہ محض انڈیکیٹر کے مطابق خانہ پوری کرتے ہوئے وزٹ بھر کے ڈیش بورڈ پر لگا دیتے ہیں اس کے علاوہ انہیں کسی قسم کی کوئی غرض نہیں سفر اور رسائی کی مشکلات مریضوں کے قریب تر مقامات پر مراکز صحت نہ ہونے کی وجہ سے بھی پریشانی کا سامنا ہے کہیں کہیں یہ دیکھا گیا ہے کہ انہوں نے ٹرانسپورٹ کا بندوبست کر کے اسے کمرشل بنیادوں پر بہتر طور پر چلایا ہوا ہے اور حکومتی سبسڈی بھی حاصل کر رہے ہیں لیکن اکثر مقامات پر ایسا نہیں ہے بلکہ وہ خانہ پوری کے طور پر چھ سے اٹھ لاکھ روپے وصول کر رہے ہیں لیکن اس قدر معیاری طبی سہولیات دینے سے اب بھی قاصر ہیں غیر مقامی نجی کلینکس اکثر شہر یا مرکزی علاقوں میں ہوتے ہیں، جس سے دور دراز کے شہریوں کو سفر میں دشواری اور اضافی خرچ اٹھانا پڑتا ہے—خاص طور پر لیہ جیسے کم وسائل والے علاقے میں۔ لیہ کا ایک اوٹ سورس بنیادی مرکز صحت دریائی پٹی میں موجود ہے جس کے لیے انے جانے کا راستہ تک نہیں ہے اور درمیان میں موجودہ سیلاب کی وجہ سے اس کا پل ٹوٹ چکا ہے اس لیے مریض اس سے استفادہ بھی حاصل نہیں کر سکتے
پنجاب حکومت نے 150 BHUs کو ‘Maryam Nawaz Health Clinics’ کے طور پر نجی شعبے کو منتقل کیا ہے، جن میں ضلع لیہ کے 3 مراکز بھی شامل تھے ۔ اس اقدام کا مقصد غیرفعال مراکز کی فعالیت کو بہتر بنانا تھا، لیکن اس سے عوام کو کئی مسائل کا سامنا ہے: مفت ادویات کی فراہمی میں کمی، نجی علاج کی قیمتوں میں اضافہ، اور مقامی ڈاکٹرز سے رابطہ ختم ہونا۔ سرکاری ملازمتوں کی غیر یقینی صورتحال اور نگرانی کے فقدان نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ دور دراز علاقوں میں سفری مشکلات نے عوام پر مالی دباؤ بڑھا دیا ہے، جس نے حکومت کی صحت عامہ کی اولین ذمہ داری پر سوال اٹھا دیا ہے، خاص طور پر لیہ جیسے پسماندہ اضلاع میں جہاں صحت سہولتوں کی ضرورت سب سے زیادہ ہے۔