پاکستان میں پچھلے دو سالوں سے کورونا جیسی خطرناک وبا نے تباہی مچا رکھی ہے جس نے لوگوں کے روزگار اور معاملات ذندگی بری طرح متاثر ہوئے۔سکولوں میں تعلیمی۔سرگرمیاں اس قدر بند ہوئیں کہ اداروں کو میٹرک و انٹرمیڈیٹ کے امتحانات مخصوص مضامین کے لینے پڑے تو ساتھ میں نمبروں کی بندر بانٹ ایسے ہوئی کہ لوگ عش عش کر اٹھے۔ قدرت کی جانب سے وبائیں مختلف ادوار میں انسانی ذندگیوں کو متاثر کرتی رہی ہیں و لیکن بہتر حکمت عملی سے ان۔پر قابو بھی پایا جاتا رہا ہے۔ پنجاب میں سوائن فلو ، ملیریا ، ٹی بی ، پولیو ، ڈینگی ، کانگو و۔دیگر وائرسیز و جراثیم کی تباہی منظر عام رہی۔ ابھی چند ہفتے قبل ہی حکومت نے تمام سکولوں ، اداروں کو معمول کے مطابق اداروں کی سرگرمیاں جاری کرنے کی اجازت دی ہے تو لاہور و دیگر بڑے شہروں سے ایک بار بھر ڈینگی نے سراٹھانا شروع کردیا ہے۔میڈیا ذرائع کے مطابق ڈینگی بخار نے جو وبائی شکل اختیار کر لی ہے وہ پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ موجودہ دنوں میں مریضوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ بھی دیکھا جارہا ہے۔ اور خدشہ ہے مزید اضافہ بھی متوقع ہے۔حکومتی بیانات پر نظر گھومائیں تو ایسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ وبائی امراض کا خاتمہ ان کی تقریروں سے ہی ممکن ہے۔ لیکن نتائج عوام کے سامنے ہیں۔
طب اور موسمی ماہرین کے مطابق گزشتہ چند برسوں سے موسمیاتی تبدیلیوں نے ان وبائی بیماریوں میں اضافہ دیکھنے کو آیا ہے جو مچھروں کے زریعے پھیلتے ہیں۔۔دوسری جانب عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ جراثیم ، وائرس اور مختلف قسم کے خوردبینی جراثیمے ، افزائش کے لئیے سازگار ماحول کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لئے حبس یا درجہ حرارت کا ذیادہ یا بارش کی ذیادتی ، پانی کا کھڑا ہونا وجہ بنتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی مختلف رپورٹس کے مطابق بارشوں میں انفیکشن پھیلانے والے وائرس اور جراثیم کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی اور دوسرے جسم میں منتقلی آسان ہو جاتی ہے جس سے ڈینگی ذیادہ ذوروشور سے پھیل رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ ڈینگی کا وائرس ایک مخصوص قسم کے مچھر سے پھیلتا ہے جو کہ سیاہ رنگت میں ٹانگوں اور جسم پر سفید دھبے نمایاں ہوتے ہیں۔
یہ مچھر وائرس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے میں موثر ذریعہ ہے اور یہ مچھر صبح سویرے یا غروب آفتاب کے اوقات میں ذیادہ سرگرم ہوتا ہے۔اسکا انڈہ 6 ماہ ذندہ رہ سکتا ہے لیکن لاروا پانی کے اندر ہی نکلتا ہے۔ سڑک کناروں ، باغیچوں ، چھتوں ، کھلے برتنوں ، ٹائروں ، کنستروں ، گملوں ، ڈرمز میں جمع شدہ بارشی یا صاف پانی سے ان۔مچھروں کی افزائش ہوتی ہے۔ ڈینگی کے مریضوں میں جو علامات سامنے آتی ہیں ان۔میں بخار ، سردرد، جسم پر سرخ دھبے ، سانس لینے میں دشواری ، ناک کان سے خون کا اخراج شروع ہونا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس مرض کا کوئی مخصوص علاج موجود نہیں ہے ۔ لیکن ہمارے ہاں پاکستان میں اس کا علاج ہر نجی و سرکاری کلینک میں نظر آئے گا ۔ ہمارے سپیشلسٹ و ایم۔بی بی ایس ڈاکٹر سے لے کر ڈسپنسر ، عطائی و سرنج ماسٹر ڈاکٹر بھی اسکا علاج جانتا ہو گا۔عوامی سطح پر فی سبیل اللہ صحت مشورے بھی درکار ہوتے ہیں ۔ صحافتی دنیا میں اسکا واحد حل عوام۔میں ڈینگی بارے آگاہی سے ہی مریض بننے سے بچا جا۔سکتا ہے جس کے لئیے محکمہ صحت ، سماجی شخصیات ، غیر سرکاری تنظیمیں دور دراز کے دیہات و شہری آبادی میں عوام کو آگاہی دی جائے کہ گھروں میں ڈینگی کا صفایا کیسے ممکن ہے۔ لیکن۔اس بارے بھی ہمارے حکومتی ادارے قابل قدر نمایاں آگاہی مہم نہ چلا سکے بلکہ سرکاری اداروں نے یہ روش اپنا لی ہے کہ کاغذی جمع خرچ سے سیمینار اور ریلیاں سرکاری دفاتر کی چاردیواری کی حدود میں دو چار قدم چل کر اور کیمرہ کی آنکھ سے تصویری جھلکیوں میں محفوظ ہوکر ڈینگی مار مہم میں سرگرم ہوتے ہیں۔اعلی افسران کو سب اچھا کی رپورٹ دکھاتے ہیں لیکن اس بار تو الیکٹرانک میڈیا کے۔ظہور درانی نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ مقامی صحت کے افسران نے ڈینگی آگاہی مہم شروع ہی نہ کر سکے ایک اور الیکٹرانک چینل پر چلنے والے ٹیکرز نے عوام کو یہ بتایا لیہ میں محکمہ صحت کے افسران نے کورونا کی ادویات ، مشینری و زبانی جمع خرچ میں کروڑوں روپے کے گھپلے ہوئے ہیں ناجانے خرچ کتنے ہوئے ہوں گے۔ سرکار ومحکمہ صحت کے افسران ، اہلکار تصویری جھلکیوں میں ڈینگی مار مہم میں سرگرم ہوتے ہیں تو دوسری جانب ڈینگی مچھر روزانہ کی بناد پر درجنوں و سینکڑوں مریضوں کو ہسپتالوں تک پہنچانے میں سرگرم ضرور ہو جاتا ہے۔۔۔۔
بشکریہ اشاعت۔ ۔
روزنامہ لیہ ٹوڈے ۔۔۔۔مورخہ 23 اکتوبر 2021ء