وہ پولیس آفیسرز جو روایت سے ہٹ کر ایمانداری،فرض شناسی کو اپنا وطیرہ بناکر مظلوم کی داد رسی کیلئے کوشاں ہوتے ہیں پولیس کے محکمہ وہی عوام کے ہیرو کہلانے کے مستحق ہوتے ہیں،انہی پولیس آفیسرز کی بدولت عوام کے اندر پولیس کے محکمہ کا بھرم باقی ہے،ضلع لیہ میں تعینات ہونے ہونے والے ڈی پی او علی وسیم گجر کو ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا کہ عزیز فارم کے نزدیک ایک ایسا ٹریفک حادثہ ہوا جس نے والدین کے تین بیٹے چھین لئے اور ان تین بھائیوں کے ساتھ ان کا ایک چچا زاد بھی اس المناک حادثہ کی نذر ہوگیا،اس حادثے نے لیہ کے ہر درد دل انسان پر شاک کی شکل میں جو اثرات چھوڑے وہ آج بھی انسان کے رونگٹے کھڑے کر دیتے ہیں،اس حادثے نے موجودہ ڈی پی او علی وسیم گجر کو بھی صدمہ سے دوچار کیا،پھر علی وسیم گجر نے انسانیت کیلئے جو عظیم مثال قائم کی شاید ماضی اور مستقبل ایسی مثال سے قاصر رہے،علی وسیم نے اُن مرنے والے جواں سال بیٹوں کے والدین کیلئے جو مرہم کا کردار ادا کیا وہ شاید ہمارے وسیب میں ایک کہانی کے ہیرو کی شکل میں ہمیشہ کیلئے سفر کرتی رہے گی،
اس کی وجہ یہ ہے کہ میں گزشتہ روز ایک کام کے سلسلہ میں جمن شاہ کے نشیبی علاقہ میں گیا تو وہاں ایک نوجوان نے مجھے یہ داستان سنائی،کہ یہاں اکثر لوگ علی وسیم گجر کی انسانیت نوازی کا ذکر کرتے ہوئے دعائیں دیتے ہیں،کہ انہوں نے آٹھ کمسن یتیم بچوں کے مستقبل کیلئے جو دست شفقت رکھا وہ کم از کم پولیس کے محکمہ میں دور حاضر میں کوئی آفیسر نہیں کرپائے گا علی وسیم کا یہ کردار پولیس کے بارے میں پائے جانے والے تاثر کے خلاف روایت سے ہٹ کر تھا،
یہی نہیں علی وسیم نے کھلی کچہریوں میں سچ اور جھوٹ کو نتارا،پولیس میں پائی جانے والی کالی بھیڑوں کو شناخت کرکے احتساب کی ایک نئی روایت قائم کی،انہوں نے اپنے تئیں کھوج لگایا کہ چوروں،ڈکیتوں اور نوسر بازوں کے خلاف ہونے والی قانونی کارروائی میں کونسے پولیس اہلکار رکاوٹ بنتے ہیں،انیس کروڑ اسی لاکھ کی خطیر رقم کو حقیقی افراد تک پہنچانا اور محض چند ہفتوں میں برآمدگی لیہ کی تاریخ میں علی وسیم کا کارنامہ ہے،پولیس اسٹیشنز کے اندر پہلی بار ان کے دور تعیناتی میں بلیک میلرز اور ٹاؤٹس کا داخلہ بند ہواہے،کریمینلز کے خلاف بروقت کارروائیاں نہ کرنے والے والے ایس ایچ او صاحبان کو یہ وارننگ بھی ملی کہ اگر تم ان کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں ہو تو اپنا منصب چھوڑ دو،

مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ علی وسیم کی تربیت یقینا ایسی شفیق ماں اور باپ کے ہاتھوں ہوئی جن کے اندر خوف خدا،انسانیت کا درد جاگتا ہے،مگر مجھے ان سے یہ کہنا ہے کہ پولیس کی وردی میں آج بھی ایسے افراد موجود ہیں جو جرائم میں ملوث عناصر سے لیکر اپنے عزیز رشتہ داروں کو تحفظ دینے میں لگے رہے اور آج بھی لگے ہوئے ہیں،انہی کالی بھیڑوں میں ایسے عناصر کا احتساب بھی ضروری ہے جو پولیس بھرتی کے وقت چند کپڑوں کی وراثت رکھتے تھے مگر آج ان کے بنگلے اور گاڑیاں ان کی کرپشن اور لوٹ مار کی چغلی کھارہے ہیں،ایسے افراد بھی موجود ہیں جنہوں نے باقاعدہ ایسے ٹاؤٹ پالے ہوئے ہیں جو ان کو گاہک پھنسا کر دیتے ہیں،پولیس میں موجود ایسے افراد کا گٹھ جوڑ توڑنے کی ضرورت ہے جو جرائم پیشہ عناصر کے سہولت کار بن کر ان سے اپنی جیب بھرنے کیلئے انصاف کا قتل اور قانون پر کراس کا نشان لگاتے ہیں،آپ کی تعیناتی سے لیکر آج تک آپ کی کاوشیں قابل ستائش رہی ہیں آپ نے اس خوف کو ختم کرنے کی سعی کی ہے جو پولیس کی وردی کی شکل ایک خوف بن کر پاکستان کے دیہی علاقوں کے باسیوں کے حقوق معطل کردیتا ہے،اور اکثر اوقات یہی خوف کرپشن کو جنم دیتا ہے،بے گناہ سے مجرم بننے کا خوف کئی گھروں کو کنگال کردیتا ہے،یہاں حقیقی مجرم پیسے کی بنا پر اتنے بااثر ہوتے ہیں کہ پولیس کے اندر کالی بھیڑیں ان مجرموں کی دہلیز پر حاضری دیتی ہیں،جیبیں بھرتی ہیں اور ان کا جرم کسی اور کے کھاتے میں ڈال کر انہیں خوش کرتی ہیں جب قانون وردی کی شکل میں ایسے بااثر مجرمان کی دہلیز پر کھڑا ہوگا انہیں تحفظ دے گا تو قانون پر عام پاکستانی کا اعتماد کیسے بحال ہوگا؟ دُکھ اس بات کا ہے کہ ”ہنی ٹریپ“کی جو قباحت پھیلی ہے اس میں پولیس کے اہلکاراور صحافی ملوث ہیں جنہوں نے باقاعدہ دھندہ کرنے والی عورتوں کے ساتھ دلال رکھے ہوئے ہیں جو ان عورتوں اور متاثرہ فرد کے درمیان مک مکا کراتے ہیں،اور ان بے چہرہ صحافیوں کا ایک کام یہ بھی ہے کہ وہ ہر ڈی پی او کی خوشامد کرکے تھانوں میں اپنے من پسند اہلکار تعینات کراتے ہیں تاکہ ہمارا دھندہ چلتا رہے ان بے چہرہ صحافیوں کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی ہے کہ کسی پولیس کیس میں یہ ٹانگ اڑائیں تو فیصلہ بھی ان کی منشا کے مطابق ہو اگر فیصلہ ان کی منشا کے خلاف میرٹ پر ہوتا ہےتو انصاف پسند پولیس آفیسر اور اہلکار ان بے چہرہ صحافیوں کے ناپسندیدہ ٹھہرتے ہیں تھانوں کے اندر ظالم اور مظلوم کی کہانی کے پس منظر اور پیش منظر پر بھی انشااللہ قلم اُٹھاتا رہوں گا