پنجاب خیبر پختونخواہ اور سندھ میں سیلاب کے بعد حکومت ریسکیو ریلیف اور بحالی مکنیزم کے تحت اب تمام تر توجہ بحالی پر دے گی اس کے لیے وہ کتنے مخلص ہیں اس کا اندازہ حالیہ سیلاب کے دوران پنجاب حکومت کی کارکردگی سے لگایا جا سکتا ہے جس میں بلاوجہ بند توڑ کر رہائشیوں کو سیلاب میں ڈبو دیا گیا ان کی تیار فصلیں گھروں میں پڑا ہوا اناج اور گھر بھی تباہ ہو گئے اس کا علم انہیں ضرور تھا قدرتی آفات ایک ایسا عمل ہے جو نقصانات کا باعث بنتا ہے لیکن حکومتیں اسے کم کرنے کے لیے عوام کی فوری بحالی کے لیے انہیں دوبارہ زندگی کی پٹری پر چڑھانے کے لیے بہتر سے بہتر اقدامات عمل میں لاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے 78 سالوں سے نہ کوئی منصوبہ بندی ہے نہ کوئی دوررس نتائج کی حامل ترقیاتی منصوبے ہیں صرف چند عمارتیں سڑکات کے جال بچھا کر کمیشن خوری کے ذریعے ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر عمل کرتے ہوئے صرف ایک سیاسی جماعت کے پیچھے پوری مشینری کو لگا کر اپنی نیک نامی کرنے کی بجائے عوام کی نظروں میں اس سیاسی سسٹم کو گرا رہے ہیں حالانکہ کئی تہائی اکثریت کی حامل وفاقی صوبائی حکومتیں بہتر سے بہتر قوانین ترتیب دے سکتی تھی لیکن پارلیمنٹ صرف اپنی حکومت کو زندہ رکھنے کے لیے تمام ادارے زیر تسلط لا رہی ہے اور سیلاب کے بعد کی صورتحال بھی یہی بن رہی ہے کہ اب ایک بہت بڑا مہنگائی کا طوفان آ رہا ہے جو ہماری قوم 2010 میں بھی جھیل چکی ہے لیکن اب پھر تیار رہے حکومت جو قرضے حاصل کرے گی جس طرح کھربوں روپے کے قرضوں کا پہلے علم نہیں ہے کہ کہاں گئے اب بھی یہی ہوگا کہ کچھ بھی نظر نہیں آئے گا اور وہ آدمی جو پہلے بھی غربت کی لکیر کے نیچے گرتا جا رہا ہے اور ملک کی 50 فیصد آبادی گر چکی ہے اب 25 فیصد سے زائد مزید گر جائے گی لیکن حکمرانوں کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہے عوام اپنے اپ کو وارم اپ کر لے کہ وہ کس طرح سے ایسے مافیاز کے شکنجے میں آنے والی ہے کیونکہ ہمارا سیلاب وقتی بحران ہو سکتا ہے چند ہفتوں یا ایک آدھ ماہ میں واپس ماند پڑ سکتا ہے۔ لیکن مہنگائی اور منافع خوری کا طوفان پورے سال اور ممکنہ طور پر آنے والے برسوں میں ہماری قومی معیشت اور عوامی زندگی پر حکمرانی کرنے کو تیار ہے نظر ا رہا ہے۔سیلاب کی تباہ کاری سے زمین، فصلیں اور انسان سب نقصان میں ا چکے ہیں اور کھڑی فصلات ڈوبنے سے گھر میں رکھے اناج کہ خراب ہونے پر بہت بڑا بحران پیدا ہو چکا ہےپاکستان بھر ، پنجاب میں موجودہ سیلاب کو بیس سال میں سب سے سنگین قرار دیا جا رہا ہے۔ تقریباً 8,400 سے زائد دیہات زیرِ آب آئے، اور 1.05 ملین ایکڑ سے زائد زرعی اراضی تباہ ہوئی ، تقریباً 51 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے، اور 1.895 ملین کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ۔زرعی پیداوار چاول، گنے، مکئی، سبزیاں اور کپاس کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا، جس نے خوراک اور برآمدات دونوں شعبوں پر شدید اثر ڈالا ھے اس کے اثرات چند دنوں میں نمایاں ہو جائیں گی۔Homeلا تعداد لوگ بے گھر ہوئے، لاکھوں جانور ہلاک ہوئے، زرعی روزگار ختم ہوا اور غذائی تحفظ کو براہِ راست خطرہ لاحق ہوا ۔فوڈ سیکیورٹی اور بیروزگاری کے خطرات میں 100 فیصد اضافہ ہو چکا ہے پہلے بھی بے روزگاری نے ملک کو تباہ کیا ہوا ہے معیشت قرضوں پہ چل رہی ہےخوراکوں کی قلت اور ذخیرہ اندوزی کے باعث قیمتوں میں اضافہ ہو چکا ہے: ٹماٹر اور پیاز کی قیمتوں میں بالترتیب 12٪ اور 10٪ اضافہ ہوا ہے ۔زرعی پیداواری نقصان (کپاس، نمک، سبزیاں، مکئی وغیرہ) اور خوراک کا مہیا سسٹم ڈسٹرب ہونے کے باعث معاشی ماہرین کا اندازہ ہے کہ ستمبر میں افراطِ زر میں 4.5٪ تک اضافہ ہو سکتا ہے ۔مہنگائی کے بڑھتے ہوئے اعداد و شمار جو صرف اندازے پر ہی مقرر کیے گئے ہیں جولائی میں مہنگائی کی شرح 4.1٪ تھی، جو اگست میں کم ہو کر 3.0٪ رہ گئی ۔لیکن سیلاب سے متاثرہ دریاؤں اور سپلائی چین کے تضیع ہونے کے باعث خوراک اور زرعی اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہےیہ مہنگائی کے نئے خطرے کی خبر ہے اس میں وہ عوامل بھی شامل ہیں جو ہمیشہ برے وقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام کا خون چوس لیتے ہیں اشرفیہ کا وہ طبقہ جو اسی طرح سے ہمیشہ قوم کو لوٹ رہا ہے انہوں نے بھی پر تول لیے ہیں ۔
قرضوں کا حصول اور سیاسی ناکامی ابھی سے ظاہر کر رہی ہے کہ اگر ہوش کے ناخن نہ لیے گئے تو پھر بہت دیر ہو جائے گیحکومت کی توجہ قرضوں کے حصول اور خسارے کو پورا کرنے میں ہے، جب کہ ملک کی اصلی سروس خوراک دستیابی اور قیمتوں پر کنٹرول پسِ پردہ محسوس ہوتی ہے۔ ذخیرہ اندوزوں کے خلاف عملی کارروائی نہ ہونے کے برابر ہے، جیسا کہ سیلاب کے دوران بھی ظاہر ہوا کہ صرف حفاظتی بند ٹوٹے، ریلوے لائنیں تباہ ہوئیں، اور سیاسی بیانیے نے مشکلات کا احاطہ کیا ۔ اس تباہی، بحران، پر دعا کی جا سکتی ہے کہ حکمران طبقہ جو 50 سالوں سے ملک پر حکمرانی کر رہا ہے وہ اب بھی اگر نہیں کچھ کر پاتا تو پھر سمجھ لیں انہیں عوام سے کوئی غرض نہیںسیلاب کی تباہی وقتی ہو سکتی ہے، لیکن قرضوں، مہنگائی، اور فوڈ سیکیورٹی کا بحران ہم پر سال بھر سایہ ڈالے گا۔ غریب کا چولہا ٹھنڈا ہو جائے گا، متوسط طبقہ دیوالیہ ہو سکتا ہے، اور امیر طبقے کا تسلط مزید مضبوط ہوگا۔ یہ ایک معاشرتی اور اقتصادی انقلاب کی طرف لے جا سکتا ہے مگر اپنے اندر تباہ کن خطرات بھی رکھتا ہے۔ہمارے پاس اب صرف دعا باقی رہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو عقل سلیم عطا کرے، اور ان کو ایسی حکمتِ عملی دے کہ عوام کے مفاد، خوراک کی دستیابی، اور قیمتوں پر شفافیت کو ترجیح ملے۔ائیں دیکھتے ہیں اس وقت کس قدر نقصانات کا سامنا کر رہے ہیں خلاصہ اعداد و شمار بصری شماریات ، معلومات کے تحت سیلاب زدہ اراضی 51 لاکھ ایکڑ (1.05 ملین ایکڑ) تقریباًمتاثرہ افراد تقریباً 51 لاکھ افراد
قیمتوں میں اضافہ ٹماٹر: +12٪، پیاز: +10٪
افراطِ زر کی شرح جولائی: 4.1٪ → اگست: 3.0٪ (ممکنہ ٹرینڈ: ستمبر میں مزید اضافہ) یہ مہنگائی کا ٹرینڈ اس تیزی سے بڑھ رہا ہے جو اس بات کا انڈیکیٹر ہے کہ حکومت اس پر کبھی کنٹرول نہیں پا سکے گی نہ انہوں نے پہلے کوشش کی ہے گندم کا بحران سب سے پہلے سر اٹھائے گا