منشیات کی دنیا میں ہر گزرتے دن کے ساتھ نت نئے زہر متعارف ہو رہے ہیں، مگر ان میں سب سے زیادہ خطرناک اور تیزی سے پھیلنے والا نشہ “آئس” (Crystal Meth) ہے،یہ سفید رنگ کا شیشے جیسا پاؤڈر یا کرسٹل ہوتا ہے جو نہ صرف دماغی و جسمانی صحت کو تباہ کر دیتا ہے بلکہ انسان کی شخصیت، کردار، گھر، خاندان اور معاشرے کو بھی کھوکھلا کر دیتا ہے۔ “آئس سموکنگ” کو روکنا اب صرف ایک آپشن نہیں رہا، بلکہ یہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن چکا ہے۔

“آئس” جسے “میٹھ” (Methamphetamine) بھی کہا جاتا ہےایک نہایت طاقتور مصنوعی کیمیکل ہے جو اعصابی نظام کو متاثر کرتا ہے،اسے سونگھ کر، سموک کر کے یا انجیکشن کے ذریعے جسم میں داخل کیا جاتا ہے،اس کا اثر فوری ہوتا ہے مگر نتائج تباہ کن ہیں ،ابتدا میں صارف خود کو چاق و چوبند محسوس کرتا ہے، نیند کم ہو جاتی ہے، بھوک مر جاتی ہے اور ذہن بظاہر تیز ہو جاتا ہے، مگر چند ہفتوں میں ہی یہ کیفیت شدید جسمانی و نفسیاتی بیماریوں میں بدل جاتی ہے،آئس کے اثرات وقتی طور پر خوشی یا توانائی کا دھوکہ دیتے ہیں، مگر حقیقت میں یہ دماغ کے قدرتی کیمیکل (ڈوپامین) کو تباہ کر دیتا ہے، جس کے نتیجے میں مستقل ڈپریشن، چڑچڑا پن، یادداشت کی کمزوری، شک کی بیماری، خودکشی کے خیالات اور نفسیاتی بے قابو پن جنم لیتے ہیں۔ جسمانی طور پر یہ دانتوں کو متاثر کرتاہے، جِلد کو خراب کرتا ہے، دل کی دھڑکن غیر متوازن کرتا ہے اور کئی بار جان لیوا دورے پڑ سکتے ہیں۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں نوجوان نسل آئس کا سب سے بڑا ہدف بن چکی ہے۔ یونیورسٹیز، کالجز، اور یہاں تک کہ اسکولوں میں بھی آئس کا استعمال ایک “فیشن” یا “ٹرینڈ” کے طور پر پھیل رہا ہے۔ تعلیم کا مقصد جو کبھی کردار سازی تھا، اب صرف نمبرز اور گریڈز کی دوڑ بن چکا ہے اور اسی دباؤ میں نوجوان ان راستوں پر چل نکلتے ہیں جن کا اختتام تباہی ہے۔
آئس صرف ایک فرد کو نہیں بلکہ پورے خاندان کو توڑ کر رکھ دیتی ہے،والدین اپنی اولاد کی بے راہ روی پر بے بس نظر آتے ہیں۔ رشتے دار، دوست اور معاشرہ اُس شخص سے کٹنے لگتا ہے جو نشے کا شکار ہو اور وہ آخر کار تنہائی، جرائم اور پاگل پن کی طرف بڑھتا ہے،یہ نشہ صرف صحت کا دشمن نہیں بلکہ اخلاقی، معاشرتی، اور معاشی زوال کا سبب بھی ہے۔
آئس جیسے نشے کی روک تھام کے لیے صرف قانون بنانا کافی نہیں، بلکہ اس پر سختی سے عمل درآمدبروقت کارروائی اور ہر سطح پر عوامی آگاہی کی مہمات بھی ضروری ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہیے کہ وہ منشیات فروشوں کے خلاف “زیرو ٹالرنس” پالیسی اختیار کریں، چاہے وہ کسی بھی بااثر طبقے سے تعلق رکھتے ہوں۔تعلیمی ادارے صرف تعلیم دینے کی جگہ نہیں بلکہ کردار سازی کی نرسری ہوتے ہیں،مدارس، اسکولز اور جامعات میں نہ صرف منشیات سے متعلق آگاہی دینی چاہیے بلکہ ماہرین نفسیات، علماء، اور اساتذہ کو مل کر ان موضوعات پر سیمینارز، لیکچرز اور ورکشاپس کروانی چاہییں تاکہ طلبہ خود کو محفوظ رکھ سکیں۔

آئس سموکنگ کے خلاف جہاد صرف حکومت کا نہیں ہر فرد کا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں، اُن سے دوستی کریں اُن کی بات سنیں اور وقت دیں، توجہ کی کمی وہ خالی جگہیں ہیں جہاں نشہ جڑ پکڑتا ہے،نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ کسی بھی وقتی جذباتی یا تعلیمی دباؤ کے تحت اپنے جسم و دماغ کو تباہ نہ کریں۔
“آئس سموکنگ روکی جائے” محض ایک نعرہ نہیں بلکہ ایک قومی مشن ہونا چاہیے،آئس نہ صرف جسمانی بیماری ہے بلکہ یہ ایک سماجی ناسور ہےجسے جڑ سے اکھاڑنا ہر پاکستانی کی ذمہ داری ہے۔ اگر آج ہم نے اپنی نوجوان نسل کو بچا لیا تو کل ایک روشن پاکستان ہمارا منتظر ہوگا ورنہ تباہی کا اندھیرا ہر دروازے پر دستک دے گا۔
کالم نیک نیتی سے شائع کیا گیا ہے ادارہ کا اسکے اعداد و شمار یا تحریر سے متفق ہونا لازمی نہیں۔ کسی بھی اصلاح کی صورت میں ادارہ سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ شکریہ