تحریر:عبداللطیف قمر
مانتا ہوں، مجھے جذبوں کو زبان دینا نہیں آتا۔ میں اُن لمحوں کی ترجمانی سے قاصر ہوں جو اندر ہی اندر طوفان کی صورت اٹھتے ہیں مگر اظہار نہیں پا سکتے۔ میرے پاس وہ الفاظ نہیں جو اَن کہے درد، دبی چیخوں اور سسکیوں کو آواز دے سکیں۔ دل اندر ہی اندر چیختا ہے، تڑپتا ہے، مگر میں اسے لفظوں کا لباس نہیں پہنا پاتا۔ زندگی مجھے کرب ناک مناظر دکھاتی ہے، بے بسی، دکھ اور خاموشی مل کر میری روح کو نوچتے ہیں، اور میں ایک گونگی تصویر میں بدل جاتا ہوں۔
میرے اندر ایک کہانی سلگتی ہے، مگر صفحۂ قرطاس پر لفظ بننے سے پہلے ہی راکھ ہو جاتی ہے۔ میں سوچتا ہوں، ان دل خراش کیفیات کو کن لفظوں میں بیان کروں جنھیں صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ میں جو منظر اپنے لفظوں سے تراشنا چاہتا ہوں، وہ پیکر میں نہیں ڈھل پاتے۔ میرے خیالوں کی بکھری ہوئی لکیریں تصویر بنانے کی کوشش تو کرتی ہیں، مگر کوئی عکس ابھرتے ابھرتے دھندلا جاتا ہے۔
میرے جملے منتشر ہیں، جیسے الجھے ہوئے دھاگے جو کمزور، رعشہ زدہ ہاتھوں میں اور الجھتے جاتے ہیں۔ میرے الفاظ ناتواں ہیں، جو دل کی گہرائیوں سے ابھرنے والے جذبات کا بوجھ نہیں سہہ پاتے۔ یوں لگتا ہے جیسے میری تحریر میرے احساسات کے ساتھ قدم ملا نہیں پاتی، اور میں، ایک ناکام معمارِ خیال، اپنی ہی تخلیق کے ملبے پر کھڑا حیرت زدہ رہ جاتا ہوں۔
تسلیم کرتا ہوں کہ میں ابھی ناپختہ ہوں، الفاظ کے ہنر سے مکمل آشنا نہیں، مگر میری کوشش جاری ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ حرف سے حرف جوڑ کر ایسا لفظ تراش سکوں جو میرے دل کے کرب کا آئینہ بن جائے۔ وہ کرب جو ہر لمحہ بےقراری میں ڈھل کر میرے اندر کی دنیا کو ویران کر دیتا ہے۔ میں اُن مناظر کی تصویر نہیں کھینچ پاتا جو دل کو چیر کر رکھ دیتے ہیں۔ کچرے سے روٹی کے ٹکڑے چنتے بچوں کی آنکھوں میں چھپی بےبسی، ان کا خاموش احتجاج، اور معصومیت پر پڑے زخم میرے الفاظ کی گرفت سے باہر ہیں۔
مجھے وہ زبان نہیں آتی جو اس ماں کے آنسوؤں کا مفہوم بیان کر سکے، جو اپنے بھوکے بچوں کو تھپک تھپک کر سُلا دیتی ہے، اور خود اندھیرے میں ٹوٹتی رہتی ہے۔ افلاس زدہ چہروں پر لکھی حسرتوں کی کہانی میرے بس کی بات نہیں، نہ ہی اُن نقوش کو لفظوں میں ڈھال سکتا ہوں جو وقت کی بےرحمی سے مٹتے جا رہے ہیں۔
اور کیسے بیان کروں اُن بیٹیوں کی آخری ہچکی کو جو غیرت کے نام پر مار دی جاتی ہیں؟ وہ لمحہ جب اُن کی سانسیں رکتی ہیں اور پورا معاشرہ خاموشی اوڑھ لیتا ہے۔ میں اُن خبروں کو کیسے جھیلوں جن میں ہر روز کسی معصوم کو درندگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے؟ کہاں سے لاؤں وہ الفاظ جو نہ صرف درد کو سمیٹ سکیں بل کہ انسانیت کوبھی جھنجوڑ سکیں؟ میری خامشی، میری بےبسی، میرے لفظوں کی شکستگی گواہ ہیں کہ کچھ درد صرف محسوس کیے جا سکتے ہیں، بیان نہیں۔
جہاں میں رہتا ہوں، وہاں خوشی کے نغمے نہیں بجتے، وہاں زندگی رقص نہیں کرتی۔ میرے گرد صرف آہیں، سسکیاں اور بےبس چہرے ہیں،ایسے چہرے جو مسکراہٹ کے مفہوم سے نا آشنا ہو چکے ہیں۔ ہر گلی میں دکھ کا موسم ہے، ہر در و دیوار پر محرومی کی دھول جمی ہے۔ میرے ذہن میں وہ دل کش وحسین مناظر ہی نہیں جن پر قلم رقص کرے، جنھیں لفظوں میں پرو کر خوشی کی کوئی نظم تخلیق کی جا سکے۔
میں چاہتا ہوں کہ کچھ ایسا لکھوں جو دل کو امید دے، جو آنکھوں میں روشنی بھر دے، مگر میرے احساسات کی زمین بنجر ہو چکی ہے۔ لفظ ساتھ چھوڑ دیتے ہیں، خیال بکھر جاتے ہیں۔ میں جو کچھ روز دیکھتا ہوں، جو کچھ دل پر سہتا ہوں، وہ اتنا گراں ہے کہ بیان کی قوت چھن جاتی ہے۔ میرے اندر ایک چیخ ہے، ایک بےآواز فریاد، جو صفحے پر اترنے سے پہلے ہی دم توڑ دیتی ہے۔
میری عجز بیانی کا ایک اور پہلو بھی ہے۔۔۔بہت کچھ ایسا ہے جو دل میں سلگ رہا ہے، جسے زبان دینا تو دور، سوچنا بھی جرم بن چکا ہے۔ یہاں سوال کرنا گستاخی ہے، سچ کہنا بغاوت، اور درد کو بیان کرنا ناقابلِ معافی خطا۔ حبس ایسا ہے کہ سانس لینا ناممکن محسوس ہوتا ہے، گھٹن ایسی کہ ضمیر گھٹ گھٹ کر مر جائے، اور قلم پر ایسی زنجیریں کہ وہ سچ لکھنے سے پہلے ہی ٹوٹ جائے۔
ایسے ماحول میں جکڑے ہوئے قلم کار کیا لکھ سکتے ہیں؟ وہ صرف دل کی نمی کو کاغذ پر گرا سکتے ہیں، اپنے آنسوؤں سے سیاہی بناتے ہیں اور بے بسی کا منظرنامہ خامشی سے تکتے ہیں۔ سو میں بھی وہی کرتا ہوں۔ چپ چاپ ایک کونے میں بیٹھ کر یہ تماشا دیکھتا ہوں کہ کیسے سچ دفن ہوتے ہیں، کیسے خواب روندے جاتے ہیں، اور کیسے ہر احساس کو سنگینوں کے سائے میں دم توڑ دیتا ہے۔ میں بولنا چاہتا ہوں، لکھنا چاہتا ہوں، پکارنا چاہتا ہوں مگر ہر آواز، ہر لفظ، ہر خیال پابندِ سلاسل ہے۔