پاکستان میں جمہوریت کے استحکام اور مقامی سطح پر عوامی سہولیات کی فراہمی کے لیے بلدیاتی ادارے ہمیشہ اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ یہ ادارے گلی، محلہ، گاؤں اور قصبے تک حکومت کے نظام کو پہنچاتے ہیں اور عام آدمی کی آواز کو اوپر تک پہنچانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ آج کے بدلتے حالات میں، خاص طور پر سیلاب، کورونا اور دیگر ہنگامی مسائل کے تناظر میں، مضبوط اور فعال بلدیاتی ممبران کی موجودگی پہلے سے زیادہ ضروری ہو چکی ہے۔

پاکستان کے قیام کے بعد مختلف ادوار میں کئی بلدیاتی نظام سامنے آئے۔ جنرل ایوب خان کے دور میں 1959ء میں “بیسک ڈیموکریسیز” کا تجربہ کیا گیا جس نے مقامی نمائندگی کو باضابطہ شکل دی۔ اس کے بعد جنرل ضیا الحق کے دور میں 1979ء کا لوکل گورنمنٹ آرڈیننس آیا، جس کے تحت تین سطحی نظام تشکیل دیا گیا: یونین کونسل، تحصیل/ٹاؤن کونسل اور ضلعی کونسل۔ ان اداروں کے ارکان عوامی ووٹ سے منتخب ہوتے اور خواتین، مزدور/کسان اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستیں مختص کی جاتیں۔
سن 2000-2001 میں جنرل پرویز مشرف کے ڈیوولوشن پلان اور لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2001 کے تحت “ناظم اور نائب ناظم” کا ماڈل متعارف کرایا گیا۔ اس نظام میں ضلع، تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر نمائندے براہِ راست یا بالواسطہ منتخب ہوتے اور مقامی ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ ساتھ بنیادی سہولیات کی فراہمی میں بھی ذمہ دار ٹھہرتے۔ اس کے بعد صوبائی سطح پر الگ الگ قوانین بنے، جیسے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 اور پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019، جنہوں نے میئر، چیئرمین اور وارڈز کے ڈھانچے کو مزید واضح کیا۔
بلدیاتی ارکان کا بنیادی مقصد اپنے علاقے کے مسائل حل کرنا اور انتظامیہ تک لوگوں کی ضرورتیں پہنچانا ہے۔ وہ عام نشستوں کے علاوہ مخصوص کوٹہ (خواتین، اقلیتیں، مزدور، کسان، نوجوان) کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں۔ اگر یہ نظام بااختیار اور فعال ہو تو کسی بھی ایمرجنسی میں وہ سب سے پہلے متاثرہ آبادی تک پہنچ سکتے ہیں۔
سیلاب کے دوران مقامی نمائندے نہ صرف بچاؤ اور امدادی سرگرمیوں کو منظم کر سکتے ہیں بلکہ گھروں کے ریکارڈ اور کمزور طبقات کی نشاندہی کے ذریعے بروقت ریلیف پہنچانے میں سہولت فراہم کرتے ہیں۔ کورونا وبا کے دوران بھی اگر یونین کونسل کی سطح پر نمائندے فعال ہوں تو ویکسینیشن مہم، لاک ڈاؤن کے نفاذ اور آگاہی مہمات میں وہ ایک موثر قوت ثابت ہو سکتے ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان میں اکثر بلدیاتی اداروں کو تسلسل کے ساتھ چلنے نہیں دیا گیا۔ منتخب حکومتیں اور فوجی ادوار دونوں ہی اس نظام کو کبھی مکمل طاقت نہیں دے سکے۔ یہی وجہ ہے کہ بحرانوں کے وقت مقامی سطح پر رابطے کا فقدان رہتا ہے۔ اگر سیلاب یا وبا کے دوران ہر گاؤں، چک یا موضع میں بلدیاتی نمائندے متحرک ہوں تو انتظامیہ ان سے براہِ راست رابطہ کر کے امداد اور سہولیات کی فراہمی بہتر بنا سکتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ بلدیاتی اداروں کو آئینی تحفظ دیا جائے، ان کے مالی وسائل یقینی بنائے جائیں اور نمائندوں کی تربیت کے لیے مستقل پروگرام وضع کیے جائیں۔ ہنگامی فنڈز اور بنیادی طبی و ریلیف کٹس ہر یونین کونسل میں دستیاب ہوں۔ گھرانہ وار ڈیجیٹل ریکارڈ تیار کیا جائے اور سالانہ مشقوں کے ذریعے مقامی نمائندوں کی صلاحیتوں کو جانچا جائے۔ خواتین اور اقلیتی نمائندوں کو بھی فیصلہ سازی میں برابر کا حصہ دیا جائے تاکہ معاشرے کے تمام طبقات تک سہولیات پہنچ سکیں۔
بلدیاتی ممبران جمہوریت کی بنیاد اور بحرانوں میں عوام کی ڈھال ہیں۔ ایک مضبوط اور پائیدار بلدیاتی نظام نہ صرف روزمرہ مسائل کے حل بلکہ بڑے ہنگامی حالات میں بھی عوامی تحفظ اور سہولیات کی فراہمی کے لیے ناگزیر ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ حکومت اور پالیسی ساز ادارے اس نظام کو مضبوط بنائیں اور عوامی نمائندوں کو اصل اختیار دیں۔