کہتے ہیں تلاش رزق انسان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی ہے اور انسان ہر اس جگہ پر جا پہنچتا ہے جہاں اسکا دانہ لکھا ہوتا ہے اور اس دوران نئے تعلقات ، نئے رشتے ، نئی دوستیاں میسر آتی ہیں تونئے علاقے، رسم و رواج ، روایات دیکھنے سیکھنے کا موقع بھی ملتا رہتا ہے ، دو ہزار دو میں گورنمنٹ ٹیکنالوجی کالج لیہ سے ڈپلومہ آف ایسوسی ایٹ انجینئرنگ مکمل کرچکے تھے اور دو ہزار چار میں گورنمنٹ کالج لیہ سے بی ایس سی کی تعلیم حاصل کررہے تھے تو پرویز مشرف کا دور حکومت تھا اور پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی وزیراعلی تھے کہ محکمہ زراعت واٹرمنیجمنٹ میں ہزاروں کی تعداد میں نیشنل پروگرام برائے اصلاح کھاکہ جات کے تحت سرکاری نوکریوں کا آغاز ہوا تو ہم بھی قسمت آزمانے جا پہنچے ، اور قسمت نے ساتھ دیا تو ہم 6 دسمبر 2004 کو محکمہ واٹرمنیجمنٹ میں سپروائزر تعینات ہوگئے، اور ٹریننگ کے لئیے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں محکمانہ ٹریننگ حاصل کرنے جاپہنچے کوئی ڈیڑھ ماہ کی محکمانہ ٹریننگ کے بعد پہلی تعیناتی مظفر گڑھ کے شہر علی پور میں ہوئی اب ہم لیہ سے بزریعہ الفرید ٹرانسپورٹ علی پور پہنچے کیونکہ اس وقت سے لے کر ان علاقوں میں آج تک یہ سروس بااعتماد ہے ۔تو وہاں موٹر سائیکل رکشہ شادونادر ہی نظر آیا لیکن سائیکل رکشہ عروج پر تھا جو ہم نے پہلی بار دیکھا ، چاروناچار اسی بائسیکل رکشہ پر چڑھ کر سادات نگر روڈ پر سردار کوڑے خان پارک کے نزدیک تحصیل دفتر واٹرمنیجمنٹ پہنچے ، سائیکل رکشہ کو ایک سوار اپنی طاقت سے چلا کر اور کھینچ کر ہمیں منزل مقصود تک لے گیا راستے میں ڈر بھی بہت لگا کہ ابھی گرے کہ ابھی ، لیکن تجربہ کار سائیکل رکشہ سوار نے ہمیں محفوظ طریقے سے پہنچایا بعد ازاں یہ سواری متعدد بار استعمال میں رہی ، اب دفتر میں پہنچے تو ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسر تشریف لائے اور ہدایات جاری کیں کہ مغرب کے وقت دفتر کے دروازے بند کردئیے جائیں ، کھانا پینا سورج غروب سے پہلے مکمل کرکے رات کو کوئی دروازہ کھٹکھٹائے تو نہیں کھولنا ۔ ہماری رہائش کا بندوبست دفتر میں تھا جہاں ہمارے علاؤہ ایک چوکیدار اور دفتر کا درجہ چہارم کا ملازم بھی تھا ۔ جو کہ ملتان اور چوک سرور شہید کے رہائشی تھی ۔ کچھ دن کے بعد لیہ سے ملک اختر بودلہ اور چوک سرور شہید سے چوہدری ذوالفقار بھی آ پہنچے ، اب رات کو اس علاقے میں کچے کے ڈاکوؤں کا گشت ہوتا تھا اور دیہات کے علاؤہ شہروں میں بھی انکا ڈنکہ بجتا تھا ، قانون نام کی چیزیں صرف دن کو وردی میں نظر آتیں تھیں باقی سرداری نظام قائم و دائم تھا ، کچھ دن کے قیام میں ہم نے سڑکوں پر ڈکیتی و قتل کی متعدد وارداتیں دیکھیں تو مزید سہم سے گئے اور اس اثناء میں وہاں کے مقامی ایم این اے سے بزریعہ اپنی سیاسی خاندان لیہ سے رابطہ پر ملاقات کی تو انہوں نے کچھ حوصلہ دیا اور اپنے بھانجے کو کہا کہ انکے پاس وقتاً فوقتاً چکرلگائیں اور انکو کوئی مسئلہ نہ ہو ، اس دوران انہوں نے اپنا ایک پختہ کھال بنانے کے لئیے ہمیں سروے کے لئیے لے گئے تو دوران سروے ہمیں معلوم ہوا کہ ہم تو اسی علاقے میں ا پہنچے ہیں جہاں کا صرف نام سنا تھا یعنی ان ڈاکوؤں کی کمین گاہیں تھیں ، اور ہمارے سروں پر چار پانچ لوگ گنیں سنبھالے پہنچ چکے ہیں ، ہم نے اپنے اوسان بحال رکھے اور انکے پوچھنے پر ہم نے بتایا کہ ہم تو سردار صاحب (ایم این اے ) کے مہمان ہیں اور انکی زمینوں کا سروے کرنے آئے ہیں اس اثنا میں ہمارے پاس سردار کا بھانجا بھی پہنچ چکا تھا جن کی موجودگی میں ہم نے اپنا کام مکمل کیا اور بحفاظت واپس آ گئے ، کوئی تین ماہ ہم نے علی پور میں گزارے اور محکمہ واٹرمنیجمنٹ کے کھالوں کے سروے کئیے ، اس دوران علی پور میں کچھ ہمارے دوست بھی بن گئے ایک ہوٹل والا ، ایک کریانہ سٹور والا ، ایک لکڑیوں کے ٹال والے سے بھی سلام دعا ہوگئی ، ہمارا سرکاری عہدہ تو سپروائزر کا تھا لیکن مقامی لوگ ہمیں اوورسئیر بلاتے تھے اس دوران علی پور میں انار اور کیلا کے باغات کافی تھے جس سے مقامی افراد کے ساتھ تعلقات اور گپ شپ کی وجہ سے متعدد بار اناروں سے الیک سلیک ہوئی ، اس علاقے کی خاص بات یہ تھی جو اس وقت میں نے اور ملک اختر بودلہ نے نوٹ کی کہ انکے مرد دن کے اوقات میں چوک چوراہوں پر تاش کھیل کر اپنا وقت پاس کرتے ہیں اور مہمانوں کو گھر کی بیٹھک پر بٹھانے کے بجائے انہی ہوٹلوں پر چائے پلواتے ہیں۔ لڑائی جھگڑا، دہشت پھیلانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے ۔ اس دوران ہمارے پاس ایک علی پور سادات پور سائیڈ سے ایک مشتاق احمد زمیندار دفتر ا پہنچے جو کہ کاشتکاری میں بڑا شوق رکھتا تھا اور اس دوران لیزر لیولر صرف محکمہ واٹرمنیجمنٹ کے پاس ہوتا تھا جو کاشتکاروں کو کرایہ پر دستیاب ہوتا تھا لیکن مشینری کم ہونے پر کم دستیاب ہوتا تھا اور اکثر اوقات بڑے سیاسی زمینداروں کے رقبوں پر کام کرتا تھا ہماری دوران گفتگو اور پختہ کھال کی سکیم کے متعارف کرانے پر اس زمیندار نے حامی بھر لی کہ وہ پختہ کھال تعمیر کروائے گا کیونکہ اس وقت پختہ کھال کا ہمارا ٹارگٹ تھا کہ زمینداروں سے تیار کروانا ہے۔ اوپر سے صوبائی و وفاقی حکومت کی کافی سختی تھی ، اور ہم نے ان سے لیزر لیولر مہیا کرنے کا وعدہ کرلیا ۔ کچھ دن بعد انکو لیزر لیولر مہیا کردیا اور اسکے پختہ کھال کے لئیے حسب وعدہ سروے و فائل ورک شروع کردیا ، ہم بھی نئے تھے اور تازہ تازہ کالج سے فارغ ہوئے تھے تو کام کرنے کا شوق و جنون تھا اور زمیندار کو بھی پروٹوکول اچھا دے دیا جس سے انکے ساتھ ہمارا ایک تعلق گہرا ہوگیا زمیندار نے بھی دلچسپی لی ، اسکے چالیس ایکڑ کے پلاٹ کو مثالی پلاٹ بنوا دیا دو ہزار پانچ میں علی پور شہر سے 20 کلومیٹر دیہاتی علاقے میں ایک لیول شدہ پلاٹ اور پختہ کھال کی تعمیر کے آغاز نے ہمارے ڈسٹرکٹ آفیسر واٹرمنیجمنٹ رحیم بخش خان کو ہمارا گرویدہ کردیا اور اس نے ہمیں شاباش دی اور تعریف کی بطور سپروائزر اور پہلے کام کی تعریف سے ہم پھولے نہ سمائے ، لیکن یہاں ایک بڑا مسئلہ دیکھنے کو ایا کہ ہمارے اس زمیندار کے پانچ /چھ سالہ بیٹے کو ڈاکوؤں نے اغوا کرلیا اور دس لاکھ روپے تاوان کی ڈیمانڈ کی جو اس زمیندار نے ادا کرکے اپنا بیٹا بازیاب کروایا ۔ لیکن اس سے ہم لوگ مزید ڈر گئے۔۔۔ بعد ازاں اس زمیندار سے کچھ عرصہ رابطہ رہا تو انہوں نے بتایا کہ انہوں نے پولیس کی مدد سے ایک کاروائی میں ان ڈاکوؤں کا خاتمہ کروا دیا ۔۔ اس دوران واٹرمنیجمنٹ مظفرگڑھ نے چوک سرور شہید میں اپنی ٹیم کا آغاز کیا تو ہم نے ڈسٹرکٹ آفیسر سے گزارش کی کہ ہمیں علی پور سے نکالیں تو انہوں نے علی پور سے ہماری تعیناتی چوک سرور شہید کردی ، جس دن ہمیں لیٹر تبادلہ کا موصول ہوا ہم نے وہ رات بڑی مشکل سے گزاری کیونکہ ہم علی پور میں ایک رات بھی مزید نہیں گزارنی چاہتے تھے صبح سامان پیک کرکے ہم نے ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسر علی پور کے دفتر آمد کا انتظار بھی نہیں کیا اور نو بجے والی الفرید پر بیٹھ کر مظفرگڑھ پہنچے وہاں سے چوک سرور شہید کے آرڈرز اٹھائے اور شام کو چوک سرور شہید پہنچے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔