چوک سرور شہید پہنچے تو دفتر کا نام و نشان نہ تھا اسسٹنٹ ایگری کلچر انجنئیر ہمایوں مسرور کے آرڈرز ہوچکے تھے وہ گورنمنٹ ہسپتال چوک سرور شہید میں سرکاری رہائش گاہ میں رہائش پزیر تھے کیونکہ انکی بیگم لیڈی ڈاکٹر تھی ، ان سے ملاقات ہوئی تو ملک اختر بودلہ اور میری رہائش کی پریشانی ہوئی تو شام کو ایک سکول ٹیچر رفیق احمد نے اپنا مکان کوایک کمرہ اور ایک واش روم پر مشتمل تھا حوالے کردیا ، اس کمرہ میں دو تین چار پائیاں موجود تھیں بستر ہم ساتھ لائے تھے مکان پر پہنچے تو مکان نہیں تھا اس کے صحن میں چار چار فٹ کا گھاس اگا ہوا تھا اور کمرہ مٹی گرد آلود تھا ، تھوڑی بہت جھاڑ پونچھ کے بعد رہنے کا سونے کا سوچا تو مچھروں نے اپنے مہمانوں کا استقبال شروع کردیا ، اپریل کی گرمی میں باہر صحن میں آگے گھاس پر چارپائیاں ڈال کر سونے کی کوشش کی تو رات ایک ڈیڑھ بجے نزدیکی گھروں کی چھتوں سے تڑتڑ فائرنگ کی آواز آنا شروع ہوگئی علی پور سے گینگز سے ڈرے ہونے کی وجہ سے چھتوں پر چند ہیولے نظر آئے جو ہوائی فائرنگ کررہے تھے اور شوروغل مچا ہوا تھا ، اس پریشانی میں دوبارہ کمرہ میں جا گھسے اور رات مچھروں سے جنگ کرتے گزاری نیند تو ہوا ہو چکی تھی اور خود کہہ رہے تھے کہ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا کے مصداق یہ علاقہ بھی شاہد ڈکیتوں کا علاقہ ہے، صبح ہوئی ہم باہر نکلے تو علم ہوا کہ رات جو فائرنگ ہو رہی تھی وہاں ایک شادی تھی اور مہندی کی رات فائرنگ ہورہی تھی ، اگلے دن باہر سے ایک مزدور پکڑا اور گھر کی صفائی کرائی کوئی حالت زار بہتر کی، مچھر مار جلیبیوں کا پورا پیکٹ گھر کے کونے کھدروں میں جلا رکھے ، شام تک کچھ ماحول بہتر ہوا باہر چکر لگایا بازار کا کچھ دوستوں سے رابطہ تھا چوک سرور شہید سے ان سے ملاقاتیں کیں ایک باروی برتن سٹور والے ، ایک ارسلان میڈیکل سٹور سے علیک سلیک ہوئی سامنے چوک سرور شہید کا تھانہ تھا جو کہ اس وقت ایک چار دیواری سے محروم تھا ایس ایچ او کھلی کچہری ایک درخت کے نیچے لگائے رکھتا تھا اور ملاقات ہوئی تو علم ہوا کہ یہ منور خان بزدار ہیں جو بعد ازاں لیہ میں ڈی ایس پی صدر لیہ تعینات رہے ، کچھ دن ہمیں چوک سرور شہید میں انجنئیر کے ساتھ دفتر کے لئیے مکان تلاش کرنے میں گزرے اور ان دنوں میں ڈسٹرکٹ آفیسر رحیم بخش خان دو بار ہمارے پاس سے چکر لگا کر گئے اور ان دنوں میں چوک سرور شہید سے ملک حفیظ ملانہ ، چوہدری زولفقار علی ، پل اٹھاسی سے سردار سجاد خان گرمانی ، فتح پور سے عمران جمیل اور نعیم اکبر کی تعیناتی ہوئی ساتھ میں درجہ چہارم کے ملازمین کی بھارتی بھی مکمل ہوکر پہنچنا شروع ہو گئے ، دراصل ٹیم کے مکمل ہونے کا کام تو دفتر مظفر گڑھ میں کیا جارہا تھا لیکن یہ تھا کہ ایک ہفتہ تک تمام ٹیم ممبران مکمل ہو جائیں گے تو تمام ٹیم مختلف علاقوں سے پہنچ جائے گی لیکن ہم تو علی پور سے جان چھڑانے کی کوشش میں تھے اور اگلے دن ہی سامان اٹھا کر وہاں سے بھاگ آئے تھے جس کی وجہ سے یہ پریشانیوں کا سامنا کررہے تھے ، اس دوران دفتر میں جھنگ سے مہر نجم سیال بھی بطور زراعت آفیسر تعینات ہوئے ہماری ٹیم مکمل ہو چکی تھی اور نزدیک ہی سے دفتر کے لئیے مکان بھی مل گیا اور سامان دفتر فرنیچر بھی پہنچ گیا ، گرمیوں کی وجہ سے دفتر کے ایک کمرہ کو رہائش کے لئیے سیٹ کیا گیا اور صحن میں رات کو ایک گروپ کی صورت میں گپیں ، حالات و واقعات ، گپ شپ نے بیٹھک سی بنا دی اس دوران لڈو اور تاش کی بازیاں لگنے لگیں ، منیر احمد باروی ، سعید پٹواری، منیر ملانہ اور دو تین دیگر دوست بھی شام کی اس محفل میں پہنچنا شروع ہوئے تو پھر قہقوں کے ساتھ زندگی کی راتیں گزرنے لگیں۔ رنگ پور روڈ پر صرف ایک ہوٹل تھا جس پر عموماً دال چنا ہی دستیاب ہوتا تھا باقی کچھ چھوٹے ہوٹل تھے جہاں ناشتہ یا رات کے دوران کھانا کم ہی ملتا تھا پھر ایک اٹک ہوٹل ایم ایم روڈ پر پٹھانوں نے کھولا تو پارٹیاں وہاں ہونے لگیں ، چوک سرور شہید میں دفتر اور تمام سپروائزرز بارے معلومات ہرجگہ پہنچنا شروع ہو گئیں تب سوشل میڈیا اور موبائل فون کا رواج نہیں تھا اور ابھی چوک سرور شہید میں موبائل سروس کا آغاز بھی نہیں ہوا تھا یہ 2005 کی بات ہے ، ایک فون انجنئیر ہمایوں مسرور کے ہاستھا جس کے سگنلز کے لئیے دفتر میں ایک انٹینا لگایا گیا تھا تاکہ ضلعی دفتر سے پیغام رسانی جاری رہے ، ان دنوں یہاں جاز کمپنی کا ٹاور لگنا شروع ہو گیا تھا اور ایک فرنچائز بھی بن چکی تھی ، موبائلز کی شاپس کھلنا شروع گئیں اور ان دنوں موٹرولا ، نوکیا اور سامسنگ کے فونز مارکیٹس میں آنا شروع ہوا تو ہماری پہلا موبائل نوکیا 1100 خرید کیا تو جاز والوں نے دفتر آکر سب ٹیم کو ایک ایک انڈیگو سم مہیا کی جس کا ماہانہ بل سسٹم تھا ، پھر ایک پریپیڈ سم خرید جی پھر یہاں یو فون ا گئی پھر وارد آگئی ، ٹیموں میں علاقے تقسیم ہونا شروع ہوئے مقامی دوستوں نے اپنے گھروں کے قرب و جوار کے علاقے لینے میں خواہش کا اظہار کیا اور ہمیں سلطان کالونی سے سناؤں روڈ پر ٹو ایل خانپور، غازی مائنر ، حسن مائنر اور ون آر کے علاقے الاٹ ہوئے تو ہم ملک اختر بودلہ اور بندہ ناچیز ان علاقوں میں کاشتکاروں کی خدمت کے لئیے بستی بستی گاؤں گاؤں ، گھر گھر جاکر پختہ کھال بنوانے کے لئیے کاشتکاروں کو تیار کرنے لگے ، کمیٹیز بنانا ، ریکوری کرنا، سروے ، نقشہ ڈیزائن ، لیول ، پختہ ورک کی دیکھ بھال سارے کام وہ کئیے ، وہاں کے مقامی زمینداروں ، دکانداروں ، کونسلرز یونین چئیرمینز ، سماجی و سیاسی شخصیات کے ساتھ ہم گھل مل گئے ان لوگوں کو اپنی پگ کی تھی کہ لوگوں کو کہیں کہ ہم یہ پختہ سکیم کے آئے ہیں نمبرداری کا شوق تھا اور ہمارا مسئلہ یہ تھا کہ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ہنگامی بنیادوں پر کھالوں کی پختگی کا ٹارگٹ پورا کرنا تھا ، جس کی وجہ سے ہماری ٹیم کے چھ سپروائزرز ، انجنئیر ہمایوں مسرور کی قیادت میں متحد ہو گئے اور یہ ٹیم ضلع مظفر گڑھ میں ایک مثالی ٹیم بنی جس نے اپنا ٹارگٹ بروقت مکمل کیا اور اچھے انداز میں کیا۔ ایک دن تمام ٹیم قریبی اٹک ہوٹل پر دوپہر کا کھانا کھانے گئے جو چند دن قبل بھی بنا تھا اور ہم یہ سوچ کر گئے تھے چلو اسکا ریٹ کا پتا بھی چل جائے گا اور معیار کا بھی ۔ اب ہم نے اپنے مطابق آرڈر دیا اور تمام ٹیم کھانا کھا رہی تھی اور معیار کی تعریف بھی کررہے تھے ، ریٹس پوچھنے کا رواج پہلے نہیں ہوتا تھا ، پیٹ بھر کا کھانا کھایا ، میٹھا کھانے کا دل کررہا تھا لیکن یہ سوچ کر بیٹھے تھے کہ کہیں بل زیادہ نہ ہو اور پیسے نہ کم ہو جائیں کیونکہ جانے سے پہلے سب نے مشترکہ کلیکشن کی تھی اور امریکن سسٹم تھا ، تنخواہ بھی تراسی سو روپے تھی جس میں سے 1800 روپے موٹر سائیکل قسط کٹوتی کو جاتی تھی ، اڑسٹھ سو روپے میں مہینہ گزارنا ، دیگر اخراجات بھی کرنا تھے اور ویٹر کو بل بنانے کو کہا ویٹر گیا اور واپس آیا کہ آپ سب کا بل ادا ہو چکا ہے پوچھا کس نے کیا تو بتایا گیا کہ ساتھ جو ایک گروپ کھانا کھا رہا تھا وہ ادا کرگئے ہیں ، پوچھنے پر کہ وہ کون لوگ تھے ہم تو نہیں جانتے ، لیکن ہوٹل والوں نے نہ ہمیں انکا بتایا اور نہ بل لیا ، اب ہم یہ سوچ رہے تھے کہ یہ کون لوگ تھے اور دوسرا کہ اب کیسے پتا لگے کہ انکے ریٹس کیا تھے بہرحال انہیں پیسوں سے آئیندہ چند دنوں بعد دوبارہ دعوت اڑانے کا پروگرام بنا۔ اور ایک ہفتہ بعد وہ لوگ جو بل ادا کرکے گئے تھے وہ دفتر تشریف لے آئے تو ساتھ میں فروٹس کی ٹوکریاں تھیں پتا چلا کہ یہ لکی سیمنٹ والوں کی مارکیٹنگ ٹیم تھی جو اس ہوٹل میں کھانا کھا رہے تھے تو انکو پتا چلا کہ یہ لوگ تو سرکاری محکمہ کے ہیں اور اجکل اچھی خاصی سیمنٹ یہاں خرچ ہونی ہے اپنی مارکیٹنگ کرکے چلے گئے ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔۔۔۔