چوک سرور شہید میں محکمہ واٹرمنیجمنٹ کے دفتر کا آغاز ہوگیا ، انجنئیر ، زراعت آفیسر ، سپروائزرز اور راڈ مین درجہ چہارم فیلڈ عملہ مکمل ہوگیا اور ہمیں سالانہ 5 کھاکہ جات فی سپروائزر مکمل کرنے کا ٹارگٹ دیا گیا اور اس کام میں آغاز کسانوں ، زمینداروں کو ملاقات کرکے انجمن کاشتکار ان بنانی تھیں مطلب نہر،مائنر راجباہ سے ہر ایک نکلنے والے موگہ کی ایک کمیٹی بنانی تھی جس میں تمام کاشتکاروں کو پختہ کھال کی افادیت ، اہمیت اور پانی کے بچاؤ بارے آگاہ کرنا تھا اور انکو گورنمنٹ کی جانب سے پختہ کھال، نکہ جات، کی انسٹالیشن بھی کرنی تھی محکمہ کی جانب سے کھال کمیٹی ، کسانوں کو پانی کی افادیت اور بچاؤ کے طریقہ کار کے لئیے واٹر منیجمنٹ آفیسر کے نام سے ایک 16 سکیل کی پوسٹ لائی گئی جس کا کام کسانوں سے میٹنگ کا انعقاد بھی شامل تھا اور ریونیو ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ مل کر 20٪ حصہ کاشتکار بھی اکٹھا کرنا تھا اور سپروائزرز کے زمے ، ٹیکنیکل معاونت کی زمہ داری دی گئی جس میں کھال کا سروے ، ڈیزائن ، نقشہ جات ، پختگی کا حصہ، کچہ حصہ ، نکہ جات کی انسٹالیشن ، اینٹوں ، سیمنٹ ، ریت اور معیار تعمیر کو برقرار رکھنا تھا ، ایک تھرڈ پارٹی نیسپاک کو ویریفکیشن اور ڈیزائن کی تیاری بھی زمہ لگا دی گئی ، لیکن محکمہ واٹرمنیجمنٹ کے اعلی ایوانوں سے کے کر نچلے درجے تک ایگریکلچر ڈگری ہولڈر تعینات تھے تو جو زراعت آفیسر واٹرمنیجمنٹ کونام آفیسر کا دیا گیا وہ خود کو آفیسر سمجھنے لگا ، اپنا کام کرنے ، کسانوں کی میٹنگ آرگنائز کرنے یا کسانوں کی راہنمائی کہ پانی کے بچاؤ کے فائدے یا افادیت بارے آگاہی دینی تھی انہوں نے دفتر سے باہر نکلنا ہی معیوب سمجھا لیا اور ضلعی افسران نے یہ تمام کام بھی سپروائزرز کو پورا کرنے کا ہدف دے دیا اور یہ آج تک بھی ایسا ہی ہو رہا ہے بیس یا چالیس سالوں میں یہ روٹین ختم نہیں ہوئی ، ہم ابھی کالجز سے فارغ ہوئے تھے زیادہ عوامی سماجی خدمات کا تجربہ بھی نہیں تھا غلطیاں بھی ہوتی رہیں ، سیکھنے کا عمل بھی جاری رہا ، مظفر گڑھ کے مختلف موضع جات ،چکوک اور گاؤں میں مختلف قسم کے لوگوں سے ملاقات بھی ہوئی ان میں کچھ اچھے اور مہمان نواز تھے لیکن کچھ انتہائی قسم کے فسادی گروہ میں سے تھے ، کمیٹی میں شامل ہونا ، اپنی پگ اونچی رکھنا ، دوسروں کو کم تر سمجھنا ، سرکاری عملہ کے بارے میں شکایات کرنا ، خواہ مخواہ درخواستیں دینا بھی انکا وطیرہ تھا ، بہرحال ہمارا کام تھا کہ لوگوں کو قائل کرنا کہ پختہ کھال انکے فائدے میں ہے ، ان سے ریکوری کرنا ، سروے کرنا ، ڈیزائن ، نقشہ پاس کروانا ، کمیٹی کی رجسٹریشن اور گورنمنٹ کے اداروں اکاؤنٹ دفاتر سے فنڈز کا حصول بھی شامل تھا جس کے لئیے حصہ بقدر جثہ بھی ادا کیا جاتا تھا ، اس دوران سنانواں روڈ کے اڈہ غازی مائنر سے ایک بندہ ہمیں بہت تنگ کررہا تھا ، ریکوری نہ دینا ، دو چار درخواستیں بھی اس نے مختلف محکموں کو ارصال کرچکا تھا اور عوام کو کہتا پھرتا تھا کہ میں اپنی ریکوری کی رقم انہی افسروں سے دلواوں گا جس سے چھوٹے شریف زادے بھی ہم سے ربط کم کرتے جارہے تھے جس سے اب ہم پریشان تھے ادھر کھالوں کا ٹارگٹ پورا نہیں ہورہا تھا ، تنخوائیں بھی افسران نے اس بنا پر روک رکھی تھیں کہ پختہ کھال کی ریکوری مکمل کراؤ دوسری جانب ریونیو ڈیپارٹمنٹ بھی تعاون نہیں کررہا تھا کہ ریکوری کرا دے ، اب کسانوں سے ریکوری پیار محبت یا بار بار ملاقات کے علاؤہ کوئی چارہ نہیں تھا اس دوران ٹیم لیڈرز کا دباؤ بڑھتا جا رہا تھا اور ضلعی آفیسر کی ماہانہ میٹنگ بھی قریب تر ہوتی جارہی تھی میٹنگ کے دن ڈسٹرکٹ آفیسر رحیم بخش خان ہماری ٹیم میٹنگ کے لئیے آئے تو اس بار ہم سپروائزرز نے اپنے مسائل ڈائریکٹ ضلعی آفیسر کے سامنے رکھنے کا فیصلہ کیا اور یہ گھنٹہ باندھنے کی زمہ داری بھی ہمارے گلے ڈالی گئی ہم نے میٹنگ میں ٹیم کے مسائل ڈسٹرکٹ آفیسر تک پہنچا دئیے اور شاید سخت انداز میں پہنچا دئیے جس سے انجنئیر اور آفیسر کی جانب سے مجھے دیر تک بھگتنی پڑی ، بہرحال اس کا فائدہ یہ ہوا ڈسٹرکٹ آفیسر رحیم بخش خان خود فیلڈ کا بندہ تھا اور ماتحت عملہ کے مسائل سے آگاہ تھا اسنے کہا کہ انہی مسائل کے حل کے لئیے ہم موجود ہیں اور کل میں آپ کے ساتھ فیلڈ میں ہوں گا اب ڈسٹرکٹ آفیسر فیلڈ میں پہنچ رہا ہو تو انجنئیر ٹیم اور زراعت آفیسر کو بھی سخت گرمی میں پہنچنا لازمی تھا اگلے دن رحیم بخش خان صاحب بمعہ عملہ ، اسسٹنٹ انجنئیر، واٹرمنیجمنٹ افیسرز، اور ٹیم سپروائزرز نے علاقوں کا دورہ کیا اور اس زمیندار کے ڈیرے پر جاپہنچے وہ زمیندار تھا تو چالیس پچاس ایکڑ کا مالک لیکن گھر انتہائی سادہ اور ٹیلے کے اوپر بغیر چار دیواری تھا ویسے یہ علاقہ تھل میں ایک عام سے بات ہے کہ گھروں کیچاردیواری نہیں ہوتیں ، بہرحال اس دوران نزدیکی لوگوں کو علم ہو گیا کہ آج بیگی کے ساتھ عملہ دو دو ہاتھ کررہا ہے قرب و جوار سے کوئی سو ڈیڑھ سو کاشتکاران وہاں پہنچ گئے کیوںکہ تمام اہلیان علاقہ اسکی درخواستوں سے تنگ تھے ، ، وہاں ہم نے ڈی او کی بہادرانہ صلاحیتوں کا مانا کہ انہوں نے بیگی سے پوچھا کہ اب بتاؤ کیا کرنا ہے آپکے ساتھ تو انہوں نے کہا کہ اس وقت رقم نہیں ہے لیکن دو دن تک ادا کردیں گا اس چیز کی گارنٹی مانگی گئی کہ کوئی علاقے کے دو زمیندار وعدہ کرلیں تو آپکی بات مان لیتے ہیں لیکن وہاں موجود دو تین سو افراد میں سے کسی نے حامی نہ بھری انہوں نے بے بسی سے چاروں طرف نظر گھمائی تو سب چہرے ہنس رہے تھے لیکن کوئی بندہ اسکی گارنٹی دینے کو تیار نہ تھا تب اس نے ایک مقامی کونسلر ملک حنیف کھکھ کا کہا جو ہمارے ایک کھال کا کمیٹی عہدےدار بھی تھا کا کہا اس دوران ان سے رابطہ کرکے بلایا گیا وہ آیا تو اس نے کہا کہ اگر بیگی نے ان تمام لوگوں میں سے میرا نام لیا ہے تو میں گارنٹی دیتا ہوں اسکی ادائیگی میں کروں گا ، اس طرح اس زمیندار کی رقم ادائیگی ہوئی بعد ازاں اس شخص یا علاقے کے کسی شخص نے ریکوری دینے میں لیت و لعل کا کام نہ کیا لیکن کچھ دنوں بعد اس زمیندار نے ہم سے ملاقات کی اور ہم سے ایک اور کھال بنوانے کی گزارش کی جس پر ملک اختر بودلہ نے انکا کھال پختہ کیا اور پھر وہ کہتا تھا کہ مجھے اس دن سمجھ آئی کہ علاقے کے ساتھ بنا کر رکھو کہ معاملات خراب ہونے سے تین سو بندوں نے اسکی حامی نہیں بھری یہ اسکے لئیے پریشانی کا سبب بن ، ہم تو اس علاقے میں دو سال رہے بعد میں نہ جانے اسکا علاقے کے ساتھ رویہ کیسا رہا ہمیں علم نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے۔ مہر محمد کامران تھند لیہ