پاکستان بھر میں پختہ کھالوں کا کام جنگی بنیادوں پر جاری تھا اور صدر پاکستان پرویز مشرف اس میں خصوصی دلچسپی لے رہے تھے ، صوبائی گورنمنٹ کی تمام مشینری کو محکمہ کے ساتھ مکمل تعاون کے احکامات جاری تھے ، محکمہ ریونیو ، پولیس ، ضلعی انتظامیہ اور محکمہ زراعت بھی اس اہم کام کو سرانجام دینے میں پیش پیش تھے ، پرویز مشرف ماہانہ میٹنگ میں ٹاپ پر یہ پراجیکٹ تھا اور چیف سیکرٹری ، ڈی جی اور وزیر اعلی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی تفصیلات لیتے تھے جس سے ضلعی انتظامیہ بھی اس کو فوقیت دے رہے تھے۔۔۔۔۔2005/06 مالی سال میں چوک سرور شہید ٹیم کو ضلع بھر میں زیادہ کھالی بنانے پر ایک لاکھ روپے کا انعام دیا گیا جس میں فی سپروائزرز تیرہ ہزار روپے حصہ آیا ، جو کہ اس وقت ہماری دو تنخواہ کے برابر بنتی تھی تمام سپروائزرز کو لم سم 8300 روپے تنخواہ دی جارہی تھی جس میں سے 1500 روپے موٹرسائیکلز ریکوری کٹوتی ہوجاتی تھی ، باقی 6800 روپے ماہانہ تنخواہ ملتی تھی جس میں فیلڈ کا ماہانہ پٹرول اخراجات بھی تھے ، جس پر تقریبا تین ہزار روپے خرچ ہو جاتے ، مکان کرایہ ، کھانہ کا بل ، کپڑے جوتی اور دیگر موبائل اخراجات 3800 روپے میں پورے کرنے تھے تو تمام دوست پریشان تھے کہ اس میں اخراجات پورے نہیں ہورہے تھے ، لیکن سب خوش تھے کہ چلو سرکاری نوکری ہے۔ ۔ اوپر سے افسران کا کھالوں کی تکمیل ، بارشوں کے باعث اینٹوں کی عدم دستیابی اور تین تین ماہ تنخواہوں کی بندش زہنی اذیت دے رہے تھے لیکن ابھی کیونکہ گھریلو ذمہ داریوں نہ تھی اور اس سے گزارہ ہورہا تھا تو ہم نے سلطان کالونی میں ایسی جگہ ڈھونڈنے کی کوشش کی کہ موٹر سائیکل وہاں کھڑا کیا جائے اور پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کی جائے تو سلطان کالونی میں نہر کے نزدیک نمبردار چوہدری شریف سے ملاقات ہوئی جوکہ انتہائی ملنسار اور خوبصورت دل کے مالک تھے ، مہمان نواز اور ہر وقت سماجی خدمات میں پیش پیش رہتے تھے انہوں نے موٹر سائیکل اپنے گھر کھڑا کرنے کی زمہ داری لے لی لیکن کچھ دن بعد ہم دوستوں نے فیصلہ کیا کہ چونکہ ہماری فیلڈ سلطان کالونی کے گرد و نواع میں ہے تو کیوں نہ وہاں ہی رہائش رکھی جائے ، اس پر ہم چوک سرور شہید سے مکان چھوڑ کر سلطان کالونی میں ایک مکان کرایہ پر لے کر رہائش اختیار کرلی ، جس سے کچھ فاصلہ کم ہونے سے اخراجات کم کرنے کی کوشش کی گئی ، 2006/07 مالی سال میں پانچ کھالوں کا ٹارگٹ تھا جو کہ چوک سرور شہید ٹیم نے بروقت مکمل کرلیے ، اس دوران ہمارے اسسٹنٹ انجنئیر ہمایوں مسرور نے پبلک سروس کا امتحان پاس کر لیا اور وہ محکمہ بلڈنگ میں ایس ڈی او میں مستقل بنیادوں پر بھرتی ہو گئے ، اور محکمہ واٹرمنیجمنٹ کو چھوڑ دیا اجکل (2024) وہ محکمہ بلڈنگ ڈی جی خان ڈویژن کے ایگزیکٹو انجنئیر ہیں ، اس کے بعد واٹرمنیجمنٹ آفیسر نجم سیال نے ٹیم کی قیادت سنبھال لی اور انکو ٹیم منیجمنٹ کا تجربہ نہیں تھا ، اور سابقہ دو سالوں میں صبح نہانے ، کپڑے تبدیل کرنے ، لش پش کرنے اور دفتر کے ٹھنڈے کمرے سے باہر نہ نکلے تھے تو فیلڈ مشکلات کا علم بھی نہیں تھا ، فیلڈ ٹیم میں بھی دراڑیں پڑنا شروع ہو گئیں اور اوپر سے ایک نقصان یہ ہوا کہ ڈی او رحیم بخش خان کا تبادلہ ہوگیا اسکی جگہ چوہدری ظفر اللہ سندھو ا گئے وہ ایک خبطی ٹائپ اور زہنی مفلوج بندہ تھا ، رات کو دس بجے فیلڈ دفتر پہنچ جانا ، میٹنگ شروع کردینا اور کرسی کی ٹیک لگی کر سگریٹ پینا اور رات دو بجے تک ٹیم کو سامنے بٹھا کر زہنی اذیت دینا شاید اسکا مشغلہ تھا پھر اس نے جو اپنے ساتھ دو بندے اٹیچ کر لئیے وہ بھی جو مشورہ دیتے وہ انتہائی افسوس ناک ہوتے ، ان میں ایک سپروائزر چوہدری ارشد اور ایک واٹرمنیجمنٹ آفیسر مہر باغ علی کلاسرہ تھے جو بعد ازاں لیہ کی تحصیل کروڑ میں ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسر ریٹائرڈ ہوئے ، علم نہیں کی ظفر اللہ سندھو کو مظفر گڑھ کے گوپانگ ، جتوئی ، شاہ ، کھر ، قریشی ، گرمانی اور ہنجرا خاندانوں سے کیا دشمنی تھی کہ اس نے چن چن کر ان خاندانوں کے سپروائزرز اور ملازمین کو معطل و نوکریوں سے فارغ کرنا شروع کردیا جس سے ضلع کی ٹیم روز بروز کم ہوتی گئیں انجنئیرز بھی نوکری چھوڑ کر دوسرے ڈیپارٹمنٹ میں چلے گئے اور سپروائزرز کی تعداد بھی کم ہوگئی، لیکن پنجاب سے ضلع کا پختہ کھالوں کا ٹارگٹ وہی تھا جس سے فی سپروائزرز ٹارگٹ زیادہ ہوگیا اور کام کرنے والا عملہ مزید دباؤ کا شکار ہوگیا اور نوکری ختم ہونے کی تلوار بھی لٹکنے لگی کہ ناجانے سندھو کب نوکری سے بھگا دے ، ہماری ٹیم سے ملک نعیم اکبر محکمہ انہار میں چلے گئے، سجاد خان گرمانی نوکری چھوڑ کر گھر کاشتکاری کرنے لگا ایک اور دوست بھی ٹیم سے چلے گئے ، دو دوستوں کے تبادلے ہوگئے ، اس سے ٹیم بھی تتر بتر ہوگئی ، وہ گپ شپ ، شامیں ، مل بیٹھنا بھی ختم ہوتا گیا ، اس دوران ایک دن ڈسٹرکٹ آفیسر ظفر اللہ سندھو بغیر انفارم کئیے میری ایک کھال سائیٹ اڈہ ون آر پر پہنچ گئے جبکہ اس دن میں بھی فیلڈ میں کوئی چار پانچ کلومیٹر دور ہیڈ داد کے مقام پر موجود تھا ، مجھے علم ہوا تو رابطہ کیا اور سائیٹ پر پہنچنے کے احکامات ملے اور میں موٹر سائیکل پر ون آر سائیٹ کے لئیے نکل کھڑا ہوا ان دنوں پختہ سڑکیں کم تھیں ، ریتلا علاقہ تھا کچھ دیر بعد اس جگہ پہنچ گیا وہاں مہر باغ علی کلاسرہ اور ظفر اللہ سندھو ڈی او واٹرمنیجمنٹ موجود تھے اور انتہائی غصہ میں کہ آپ لوگ سائیٹ پر نہی ہو میں نے کہا کہ سر پانچ سائیٹ پر کام ہو رہا ہے میں فیلڈ میں ہی ہوں ۔ اور اگر یقین نہیں ہے تو آپ دوسری سائیٹ پر چلیں آپ پوچھ لینا ، لیکن شاید یہ بات ظفر اللہ سندھو کو ناگوار گزری اور ناراضگی کا اظہار کرتے واپس چلے گئے اور شام کو مجھے شہر سلطان تبادلہ کے احکامات مل گئے ، میں ایک ریٹائرڈ سروس آرمی افیسران کا کھال تعمیر کررہا تھا ، انکو ا کر بتایا کہ میرا تبادلہ ہوگیا اب مزید حصہ کوئی دوسرا دوست بنائے گا لیکن انہوں نے رات کو ہی میرا تبادلہ خود ہی رکوا دیا تاکہ انکا کھال مکمل کرلیں ، اس بات کا غصہ تو ضلعی افسران کو مزید بڑھ گیا لیکن لیکن بڑے افسران اور اسٹیبلشمنٹ کے افسران کے آگے سب کی بولتی بندہو جاتی ہے میراتبادلہ تو روک دیا گیا لیکن یہ بات سندھو نے دل میں رکھ لی، کھال مکمل ہونے کے بعد پھر میرے آرڈرز روہیلانوالی کردئیے گئے ، ابھی وہاں جواننگ نہیں کی تھی کہ میرے آرڈرز شاہ جمال کردئیے گئے ، اسکے بعد چوک قریشی اور کوئی تین سے چار ماہ میں جوائننگ اور ریلوینگ کراتا رہا اس سے مسئلہ یہ ہوا کہ کوئی بھی دفتر میری تنخواہ نہیں دے رہا تھا ، لیکن اس دوران ضلع کا پختہ کھال کا ٹارگٹ مکمل نہ ہوا بلکہ متعدد کھالہ جات فنڈز کی عدم دستیابی اور جون گزرنے کے باعث مسائل کا شکار ہوگئے ، فیلڈ ٹیموں پر ریکوریاں ڈالی گئیں ، آڈٹ مسائل پیدا ہو گئے اور ضلع بھر میں ٹیمیں کام کرنا چھوڑ چکی تھیں بلکہ اب ٹیمیں یونین بنانے اور ہڑتال کرنے کا سوچ ہی رہی تھیں کہ ظفر اللہ سندھو کا تبادلہ ہو گیا اور واپس رحیم بخش خان ا گئے انہوں نے تمام سپروائزرز کو ازسرنو نو اکٹھا کیا اور مشکلات میں گھرے سپروائزرز کو حوصلہ دیا اور مجھے جتوئی ٹیم جوائن کرنے کا کہا اور میں جتوئی پہنچ گیا وہاں میری سابقہ تنخوائیں بحال کروائیں اور ہم نے اگلے کام کے لئیے کمر کس لی ، وہاں ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسر شیخ عبد الماجد صاحب ایک خوش دل ، خوبصورت سے نوجوان تھے انہوں نے ہمیں ویلکم کیا اور تعاون کیا اور وہاں مختلف علاقہ جات ہیڈ بکائنی ، بیٹ میر ہزار خان میں کام کرنے کا کہا ہم وہاں چلے گئے اور ڈاہا ، گوپانگ اور شاہ فیملی کے پختہ کھالہ جات کئیے ۔ اس جگہ ان لوگوں سے ہماری روایتی انداز میں دوستانہ تعلقات بڑھتے گئے اور جتوئی میں ٹیم بھی اکٹھی ہوتی گئی۔ پھر ہم لیہ سے محمد عارف ، مہر قدیر سمرا ، میاں چنوں سے شہزاد شریف اور بندہ ناچیز ایک الگ مکان لے کر رہائش اختیار کرلی اور اچھے انداز میں دو سال گزرے۔۔۔۔۔ جاری ہے۔