سلطان کالونی سے مشرق کی طرف مشوری قوم کے لوگ آباد تھے اور انکے متعدد کھال کچہ تھے لیکن وہ بنوانا نہ چاہتے تھے وجہ انکی ریکوری نہ دینا اور تھل کا علاقہ تھا جس میں پختہ کھال تو سرکار کے مطابق کل کھال کا 30فیصد تعمیر کرنا تھا لیکن 70 فیصد بقایا کچہ کھال کی اصلاح کرنی تھی جس میں سے درختوں کا کٹای اور کچہ حصہ کی تین فٹ چوڑائی میں برموں کی تیاری اور یہ سب کسانوں نے خود کرنا تھا لیکن بہت سے لوگ ان کاموں سے بھاگ جاتے تھے اور ان میں یہ مشوری برادری کافی پریشان کررہی تھی ایک کھال پر دوران ریکوری ایک کاشتکار سے توتکرار ہو گئی اور اس نے پٹواری ، قانون گو اور دیگر عملہ کی موجودگی میں ریکوری نہ دینے کا اعلان کردیا اور ہم سے سے بدتمیزی بھی کرلی ، ہم واپس آ گئے کچھ کچھ بے عزتی بھی محسوس ہورہی تھی لیکن چپ تھے کہ اب انکا کیا کریں ، لیکن عملہ ریونیو اور دیگر دفتر ملازمین کی مشاورت کے بعد ان دو کاشتکاروں کے خلاف کار سرکار میں مداخلت ، عملہ کے ساتھ بدتمیزی ، زدوکوب اور ہراساں کرنے کی درخواست تھانہ کوٹ سلطان میں دے دی گئی جس پر تھانہ سناؤاں نے مقدمہ کا اندراج کرلیا کاشتکار نے عبوری ضمانت کرالی اور معاملہ عدالت میں چلا گیا ، سرکاری مقدمہ ہونے پر کارسرکار مداخلت ثابت ہوگئی اور عدالت میں پیشی در پیشی شروع ہوگئی ، ہم کوئی دو بار عدالت میں گئے لیکن پھر سرکاری وکیل اسکی پیروی کرتا رہا لیکن ملزمان کاشتکاران کو ہر ہفتہ سلطان کالونی سے کوٹ ادو عدالت میں حاضری دینی تھی ، جبکہ کچھ دن بعد کاشتکار نے اپنی ریکوری بھی ادا کردی جوکہ چار ہزار کے قریب تھی ، لیکن چار ہزار روپے نہ دینے کی پاداش میں عملہ ریونیو اور عملہ واٹرمنیجمنٹ کے ساتھ بھی بگاڑ بیٹھا پھر ریکوری بھی دینی پڑی اور کیس الگ سے بھگتنا پڑا ، عدالتوں کے کیسز تو کافی لمبے ہوتے ہیں اور سرکار کار میں مداخلت کے مقدمات میں شاید عام لوگ کافی پریشان ہو جاتے ہیں ، ہمیں اس بات کا علم تھا نہ عدالتی یا پولیس معاملات سے واقف تھے دو سال جب تک ہم چوک سرور شہید رہے وہ کیس چلتا رہا اسکے بعد میرا تبادلہ جتوئی ہوگیا تو یہ مقدمہ چلتا رہا ، کوئی چار سال بعد میں چوہدری شریف نمبردار سلطان کالونی سے ملنے گیا تو وہ بندہ مجھے مل گیا اور معزرت کرتے ہوئے کہا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی تھی اس دن اب چار سال میں عدالتوں کے چکر لگا کر تھک گیا ہوں اور چار ہزار روپے کی خاطر لاکھوں روپے لگا چکا ہوں۔ اب میرا فیصلہ کرا دو ہم پھر کوٹ ادو گئے اور سرکاری وکیل سے ملاقات کی تو اس نے وعدہ کرلیا کہ اگلی پیشی پر کچھ کرتے ہیں ناجانے انہوں نے بعد میں وہ کب اور کیسے مقدمہ کا خاتمہ کیا بہرحال ہم اس بات پر باخبر ہوئے کہ ایک چھوٹی سی غلطی بھی بڑی بن سکتی ہے اور چھوٹی سی سرکاری درخواست سالوں انسان کو تگنی کا ناچ نچا سکتی ہے ، اڈہ ون آر کے نزدیک ایک سناؤاں قوم بھی موجود ہے ان سے بھی اللہ تعالی معاف کرے واسطہ نہ پڑے ، وہاں ایک گھرانے کے علاؤہ باقی سارے سناؤاں قوم کے لوگ بلیک میلر ، بے ایمان ، بات بات پر مکر جانے والے لوگ ہیں لیکن کہتے ہیں جہاں اللہ تعالی نے فرعون جیسے ظالم بادشاہ پیدا کئیے تو وہاں حاتم طائی جیسے سچی اور حکیم لقمان جیسے دانا بھی پیدا کئیے ، وہاں ایک ملک شریف سناؤاں اب انکی اولاد سے ملک الطاف سناؤاں اور ایک وکیل بھی ہیں کافی سلجھا ہوا گھرانا تھا انکے گھر سے تھوڑے فاصلے پر ایک بیٹھک تھی جس میں ٹی وی وی سی آر موجود رہتا تھا اور ایک یونٹ سپیکر بھی موجود رہتا تھا ساتھ میں ایک جال کا درخت تھا ، اس بیٹھک میں ایک دونالی بندوق بھی لٹکی رہتی تھی ، یہ سناؤاں خاندان میں ایک ملنسار ، خوش مزاج ، مہمان نواز اور اخلاق دار گھرانہ تھا ، جس وقت اور جس پریشانی میں بھی وہاں گئے تو اس بزرگ نے کھانا کھلانے بنا نہ جانے دیا ، دودھ لسی اور متعدد بار مرغابی کا شکار کرکے کھانا کھلایا اور اگر کوئی زمیندار پریشان کررہا ہوتا تو ملک شریف سناؤاں وہاں جاتے اور معاملہ حل کراتے ، تونسہ موڑ پر ایک پٹرول پمپ پر بھی موجود ہوتے تھے ۔۔ انکا بیٹا ملک الطاف سناؤاں سے آج تک تعلقات برقرار ہیں اور کبھی کبھار ٹیلیفونک سلام دعا ہوتی رہتی ہے اور اس قبیلے کے باقی افراد سے اللہ امان دے ، نام تو یاد نہیں لیکن ایک کو ہم نے ایک کھال کمیٹی کا صدر بنا لیا اس نے اس بات پر ایک درخواست محکمہ کو گزار دی کہ ہم نے کوئی چار پانچ فٹ پختہ کھال دوسرے زمیندار کے رقبہ میں کیوں منتقل نہ کیا جبکہ پختہ کھال کا سرکاری نقشہ دو مستطیل کے درمیان میں تھا اور ہمارا صدر چاہتا تھا کہ سارا کھال شمالی مستطیل میں گھسا دیا جائے اور اسکے سسر کا رقبہ بچ جائے لیکن یہ غیر قانونی کام ہمیں پسند نہ تھا ۔۔۔اس کھال کی تکمیل بھی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ ظفر اللہ سندھو ڈسٹرکٹ آفیسر نے تبادلہ شہر سلطان کردیا تھا۔ ہم کچھ دن بعد دوسرے کھال مکمل کرکے شہر سلطان پہنچے اور جوائننگ بزریعہ ٹیلیفون دی کیونکہ دفتر تو موجود تھا لیکن نہ اس میں عملہ درجہ چہارم تھا اور نہ ہی افسران ، اس دوران انجنیئرز یا تو نوکریاں چھوڑ کر جاچکے تھے کچھ کو ظفر اللہ سندھو نے فارغ کردیا تھا اور اکثر دوسرے محکموں میں چلے گئے تھے ظفر اللہ سندھو کو صرف سیاسی و خاندانی لوگوں سے مسئلہ تھا ناجانے کیوں اسکا علم ہمیں نہیں تھا ، مظفر گڑھ میں اب انجنئیرنگ بھی انہی سیاسی یا زمیندار گھرانوں کے لوگوں نے کی ہوئی تھی اس وقت یہ مہنگی تعلیم غریب لوگوں کی پہنچ سے دور تھی اور دوسرا پنجاب کے تمام اضلاع میں یہ پروگرام شروع ہوا تھا تو ہر بندہ نے اپنے ضلع کو ترجیع دی اس لئیے مظفر گڑھ میں جو لوگ تعینات ہوئے وہ انجنئیر سیاسی ، اور زمیندار گھرانوں کے تھے لیکن ان کی موجودگی میں تمام ٹیمیں یکجا رہیں اور بہترین ورک ہوا مسلسل دو سالوں میں محکمہ واٹرمنیجمنٹ نے ہزاروں کی تعداد میں کھال پختہ کئیے اور دوسرا ضلعی آفیسر کا کردار بھی ہوتا ہے رحیم بخش خان کا تعلق تونسہ /ڈی جی خان سے تھا اور وہ فیلڈ کا بندہ تھا اس نے ضلع کو اس انداز میں چلایا کہ ان دو سالوں میں اس نے اوپر کا پریشر نیچے نہیں آنے دیا اور نیچے کے مسائل اوپر نہیں جانے دئیے بلکہ انکا ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ میں اور ملک اختر بودلہ اکٹھے سلطان کالونی کھڑے تھے اور واپسی لیہ کا سوچ رہے تھے ، فنڈز بندش کے باعث تنخوائیں تین چار ماہ سے نہیں ملی تھیں ، تو رحیم بخش خان گزرریے تھے گاڑی پر کوٹ ادو جارہے تھے رک گئے اور حال احوال پوچھا ، اور ہم نے انکی گاڑی میں اکٹھے سفر شروع کردیا ، راستے میں انکو علم ہوا کہ تنخواہوں کی بندش کی وجہ سے ہم لوگ پریشان ہیں تو انہوں نے اترتے ہی ہمیں دس ہزار روپے دے دئیے کہ پانچ پانچ ہزار رکھ لو جب تنخواہ ملے واپس کردینا۔ اس سے جہاں ہمیں مزید حوصلہ ہوا ۔ اسی طرح ہمارے ایک دوست مہر قدیر رنگ پور میں سپروائزر تھا اجکل سعودی عرب میں بڑا انجنئیر ہے لاکھوں میں تنخواہ لیتا ہے اس نے میٹنگ میں رحیم بخش خان کو بتایا کہ اسکا ایک کھال 3 ایکڑ پختہ ہوچکا ہے، اتنا آگے کھدائی ہو چکی ہے مطلب غلط بیانی کی جس پر خان صاحب نے موقع چیک کرنے کا کہا جس پر انجنئیر ، اور دو دیگر سپروائزر بھی ہم ساتھ تھے تو راستے میں مہر قدیر نے بتایا کہ اب کام خراب ہے کیونکہ وہاں تو صرف دو ٹرالیاں اینٹوں کی گئی پڑی ہیں باقی تو کوئی کام ہی نہیں ہوا ، ہم چوک سرور شہید سے دو گاڑیوں میں رنگ پور کی طرف رواں دواں ہیں جس میں ایک میں ہم سپروائزر تھے دوسری میں ڈی او ، ڈپٹی ڈی او، انجنئیر ہمایوں مسرور، اور واٹرمنیجمنٹ آفیسر نجم سیال تھے ، موقع پر پہنچے تو صورتحال مختلف تھے ہم خود پریشان تھے کہ آج مہر قدیر کی نوکری گئی اسکو تو ڈی او معطل ہی کرے گا ، اس وقت صورتحال دیکھ کر ہمارا انجنئیر لعل و لال ہورہے ہیں اور مہر قدیر پسینہ سے شرابور ، آواز میں ہکلاہٹ ، ہم خود خاموش ، ایسے میں رحیم بخش خان نے قدیر کو نزدیک بلایا اور ہاتھ اوپر کرکے گردن کے دوسری طرف کندھے پر رکھا اور اپنی طرف کھینچ لیا جیسے دو دوست ایک دوسرے کو ملتے ہیں اور کہا کہ پریشان نہ ہو اب میں آگیا ہوں اسی وقت کھال کمیٹی کو اکٹھا کیا گیا ان سے مسائل پوچھے اور خان صاحب نے موقع پرحل کئیے اور اگلے دن پختہ کھال کا آغاز ہوا اور جو کام ہفتوں کا تھا وہ مہر قدیر دنوں میں کروا رہا تھا اور کھال اتنی تیزی میں تعمیر ہوا کہ مہر قدیر نے پھر شکایت نہ ہونے دی۔ پھر مہر قدیر جتوئی میں رہے اور وہاں سے سعودیہ چلے گئے۔