تحصیل جتوئی سے ہیڈ بکائنی کوئی 20 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہے یہاں کی ڈاہا برادری کے لوگ کافی بڑے زمیندار ہیں اور سیاسی و سماجی لوگ ہیں ساتھ میں ڈیرے دار، مہمان نواز ہیں ، انکے مختلف کھال پختہ کررہے تھے اور ہمیں یہاں کسانوں کی ریکوری کا کوئی مسئلہ نہ ہوا ، کھال کمیٹی کے بعد ہی کاشتکار خود ہی اپنے واجبات ادا کر دیتے ، کسی کو اگر پیغام بھی مل جاتا تو لوگ رقم بھیج دیتے ، بڑے زمینداروں کو پروا نہیں تھی کہ کھال کیسا اور کہاں بن رہا ہے لیکن بن انکے ہی رقبہ میں رہا ہوتا تھا ، چھوٹے کاشتکار آجاتے کہ ہمیں ایک نکہ ادھرلگوا دیں یا کوئی پلی کی ضرورت ہے تو انکو دے دیا جاتا ، ادھر دو سالوں میں متعدد کھال پختہ کئیے اور مزے کی بات یہ کہ دفتر سے دوری کے باعث روزانہ حاضری لگانے سے استشنا تھے لیہ واپسی ہیڈبکائنی سے بزریعہ شاہ جمال ، چوک قریشی نکل آتے اور واپسی بھی ہوجاتی ، اس وقت ایڈونچر کے شوق بھی نرالے تھے کہ ٹیکنکل کالج کے ایک کلاس فیلو محمد علی جن کا تعلق گلگت بلتستان سے سکردو سے تھا انہوں نے بزریعہ فون کال اپنی شادی میں شرکت کی دعوت دے اور ہمیں بتایا کہ چار دوستوں کو دعوت ہے جن میں ایک بندہ ناچیز ، دوسرا ملک الطاف تونسوی ، ایک جھنگ سے زیشان منظور ،اور چوتھا اسلام آباد میں رہائش پزیر اشرف سرائی تھا ، ہم نے آپس میں رابطہ کیا تو سب نے پروگرام بنایا کہ شادی میں شرکت کی جائے ، پروگرام کو حتمی شکل دی گئی کہ سب لوگ اسلام آباد پہنچیں گے اور وہاں اشرف کے پاس اکٹھے ہوکر سکردو جائیں گے ، میں جتوئی سے لیہ کے لئیے روانہ ہوا ، شام کو لیہ سے اسلام آباد روانہ ہوا تو سب دوستوں نے انفارم کیا کہ وہ صبح 6-8 بجے اسلام آباد پہنچ جائیں گے ، میں صبح اسلام آباد پہنچ گیا تو جھنگ سے زیشان منظور اور تونسہ سے الطاف تونسوی کا پیغام ملا کہ وہ نہیں آرہے ، اشرف سرائی نے کہا کہ ہم دو چلتے ہیں اور ٹکٹس جرالیتے ہیں میں پیر ودھائی جا کر دو ٹکٹس بک کرا آیا بزریعہ بس سکردو جائیں گے ، جانے سے قبل اشرف سرائی بھی انکاری ہوگیا اب میں اکیلا ، ایک دن جتوئی سے لیہ ، ساری رات لیہ سے اسلام آباد اور پھر سارا دن انتظار اور ٹکٹس شام کی ، محمد علی سے رابطہ ہوا تو اس نے کہا کہ اتنا سفر کرکے آئے ہو آگے تو بس 8-10 گھنٹوں کا سفر ہے آپ ا جاو ، میں اکیلا نکل پڑا ، اور یہاں سے جو ہمیں ٹکٹس ملی وہ سرکاری سروس تھی اس وقت یہ اچھی سروس تھی این ٹی سی شاید نام تھا ، اب جو سفر شروع ہوا ، انجان راستے ، پہاڑی کھائیاں ، راستے ہیں ہم بس سواریاں سمیت یا جو سکردو کے مقامی تھے اور روز کا سفر تھا کے علاؤہ مسلمان پختہ ہوچکے تھے ، کلمہ کا ورد ، آیات و درود شریف سب متعدد بار دہرا چکے تھے ، لیکن راستے میں سکردو والوں سے تعلق و رابطہ اس طرح ہوگیا کہ تمام سواریاں ایک دوسرے سے ایسے مل رہے تھے جیسے ہم صدیوں سے واقف ہوں ، بہرحال ہم اسلام آباد سے تین بجے روانہ ہوئے ، ساری رات سفر کرنے اور اگلا پورا دن سفر کرنے کے بعد رات کو 12 بجے سکردو جا پہنچے ، راستے میں لٹکتی پلوں سے گزرے ، دریا سندھ کے شور میں سفر کیا ، پہاڑوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع بھی ملا ، پیدل بھی پلیں کراس کیں ، رات کو اندھیرہ تھا دلہا کے ماموں کے گھر میں ہمارے رہنے کا انتظام تھا رات کو تھکے ہونے کی وجہ سے سو گئے صبح سویرے میری آنکھ کھلی تو صحن سے ایک بے تحاشہ خوشبو ناک سے ٹکرائی اور میں باہر نکلا تو انکے گھر کے صحن میں سیب کے دو تین پودے تھے جس پر سبز سیب اپنے جوبن پر تھے اور صبح کی شبنم سے جگمگا رہے تھے انکی خوشبو ہر سو پھیلی ہوئی تھی دوسرا پودا خوبانی کا تھا ، پھر ساتھ ہی بادام کے پودے ، ایک آڑو کا پودا تھا ، صبح صبح کی اس خوشبو نے ہمیں فریش کردیا ، اس اثنا میں دلہا کے ماموں ا گئے انہوں نے مزید سیر کرائی اور ایک سب کھایا تو جو ذائقہ اسکا تھا وہ ذائقہ ہم یہاں پنجاب میں محسوس ہی نہیں کرسکتے ، دن کو شادی کی تقریبات میں شرکت کی جو کہ ہم سے بالکل نہ ملتی تھی وہ لوگ سادگی سی بارات لے کر گئے , چار دوست ، چار فیملی ممبرز چار محلے دار چار افراد دلہا کے ننھیال سے اور چار افراد ددھیال سے ، کل بیس افراد بارات کے ساتھ گئے اور دو اٹیچی کیس جہیز اٹھا کر دلہن کو لے آئے ، لڑکی والوں نے چاول کی ایک ڈش جس پر چکن کا سالن، ایک بڑی بوٹی مرغ پیس ، تین چار کباب اور اسکے ساتھ ہی رائتہ سلاد سے تواضع کی ، اگلے دن خاندان کے افراد کا ولیمہ تھا اور ہم لوگ سکردو گھومنے نکل گئے ، ، سے پارہ ڈیم زیر تعمیر تھا اس کا نظارہ کیا ، اسکے درمیان میں ایک جزیرہ ٹائپ جگہ تھی اسپر بزریعہ کشتی پہنچے تو وہاں جو خوبانی کھڑی تھی ،توڑ کر کھانے کے اجازت تھی کہ جتنی کھانی ہے توڑ کر کھا سکتے ہیں کوئی پیسے نہیں ، ہم نے توڑ کر کھائی تو کیا ہی ذائقہ تھا ، پھر وہاں سے واپسی ایک جنگل پارک میں گئے وہاں چشمہ کا پانی اتنا میٹھا کہ بے تحاشہ شک گزرا کہ پانی میں شکر موجود ہے ، پھر شہر سکردو کا چکر لگایا ، اگلے دن ہارے ساتھ محمد علی نے دو اور کزنز بھیجے ، جو ہمیں ایک پہاڑی پر قلعہ دکھانے کے گئے جو ایک راجہ کا محل تھا ، وہاں ہمیں انگریز فیملیز ملیں جو سیاح تھیں ، ان سے گفتگو ہوئی، اس طرح وہاں ہم جس بھی سیب یا خوبانی کے باغ میں گئے وہاں تازی خوبانیاں اور سیب کھانے کو ملے ، دو دن مزید ہم سکردو میں رہے مختلف وادیوں کا چکر لگایا ، وہاں کے لوگ بھی مہمان نواز تھے ، واپسی پر جب میں نکلا تو محمد علی کے خاندان والوں نے خشک خوبانیاں، انجیر، اخروٹ، بادام و دیگر خشک میوہ جاتے کے تحائف دئیے اس سے ایک بڑا توڑا اکٹھا ہوگیا میں نے کہا کیسے لے جاؤں گا انہوں نے اڈہ تک پہنچا دیا اور ہم اسلام آباد سے لیہ کے آئے ۔ دفتر کو درخواست برائے چھٹی اس دن بھجوائی جب میں واپس سکردو سے روانہ ہورہا تھا ، دو دن بعد میں جتوئی پہنچا اور وہاں پہنچتے ہیں طبیعت خراب، وہاں ڈاکٹر کو چیک کرایا انہوں نے کہا کہ پانی تبدیلی کا مسئلہ ہے، شکر ادا کرتا رہا کہ راستے میں طبیعت ٹھیک رہی ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے۔