نیشنل پروگرام برائے اصلاح کھالہ جات (NPIW) ایک پرویز مشرف دور حکومت کا کامیاب ترین پروگرام تھا جو پورے پاکستان میں کسانوں کو نہری پانی ٹیل تک پہنچانے کے مشن کے تحت ہو رہا تھا ، اس میں کسانوں کو مزدوری کی لاگت جوکہ 20٪ تھی ادا کرنی ہوتی اور یہ ایک موگہ سے سیراب ہونے والے تمام کسانوں میں رقبہ یا پانی کے حساب سے تقسیم ہوتا ، کھال کے تمام کسانوں کی مشترکہ کمیٹیاں تشکیل ہوتیں ، اور انکا بینک اکاؤنٹ کھولا جاتا جس میں گورنمنٹ کی جانب سے 80فیصد میٹیرئیل لاگت بھی تین قسطوں میں ادا کی جاتی ، اینٹوں کی خریداری ، نکہ جات کی انسٹالیشن ، بروقت پلیوں کی تعمیر یہ سارا کام کھال کمیٹی کا ہوتا ، اس پروگرام میں ایک تھرڈ پارٹی نیسپاک بطور کنسلٹنٹ کام کرتی جس کے انجنیئرز کھالوں کے سروے ، ڈیزائن اور تعمیر کے ساتھ کوالٹی کو چیک کرتی ، اپنی رپورٹ جاری ہوتی اور پھر گورنمنٹ فنڈز کا اجراء ہوتا ہے، اس کے بعد ایک پراجیکٹ مانیٹرنگ یونٹ (PMU ) بھی مانیٹرنگ کے لئیے آتا ، اور مختلف کھالوں کی تعمیر کو چیک کرتا جس سے کام کے معیار میں کمی بیشی نہ ہونے کے برابر ہوتی ،۔ ان دنوں الیکشن 2008 کی تیاریاں شروع ہوئی اور اس دوران ایک پاکستان کا بڑا سانحہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا ہوا ، دو سے تین دن ملکی حالات انتہائی گھمبیر ہو چکے تھے 27 دسمبر کو بے نظیر بھٹو کو لیاقت باغ میں جلسہ کے بعد گولی مار دی گئی جس سے ملک بھر میں کرفیو لگ گیا ، میرا 28 دسمبر کو ملتان میں پاکستان ورکس ڈیپارٹمنٹ (PWD) کی ایک پوسٹ کا تحریری ٹیسٹ ملتان میں ہونا تھا ، اور اس میں شرکت کے لئیے لیہ آیا ہوا تھا کہ یہاں سے جاؤں گا ، تو شام کو بے نظیر کی شہادت اور ملکی حالات کے پیش نظر یہ ٹیسٹ کینسل کردئیے گئے ، الیکشن کے بعد مظفر گڑھ ضلع میں پاکستان پیپلز پارٹی کے پانچ حلقوں میں ممبران قومی اسمبلی منتخب ہوئے جن میں علی پور جتوئی میں دونوں قیوم خان جتوئی اور معظم علی خان جتوئی منتخب ہوئے ، ہمیں امید تھی کہ یہ لوگ ترقیاتی کاموں میں بہتری لائیں گے ، لیکن اس الیکشن کے بعد دو سال وہاں موجود رہنے کے دوران ہمیں کسی جتوئی سیاستدان کا فون موصول ہوا تو یہ ہوا کہ اس سکیم کو روک دو، اس بندہ کا کھال نہیں بنانا ، اسکی پلی نہیں بنانی ، 2009 میں ہماری ایک ملاقات معظم خان جتوئی ایم این اے سے ہوئی تو اس نے حسب روایت دو تین سکیموں پر کہا کہ یہ کام آپ لوگ غلط کررہے ہیں اور یہ میرے مخالفین کے کھال بنا رہے ہیں انکو روک دو ، میں نے ادھر کہہ دیا کہ سردار صاحب تو یہ سکیمیں کہاں بنائیں کوئی آپ اپنے سپورٹران کی لسٹ دے دیں انکو بنا دیتے ہیں ، انہوں نے کہا کہ ہو جاتے ہیں کام ، یہ کوئی ضروری ترقی نہیں ہے ، میں نے وہاں کہہ دیا کہ سردار صاحب اللہ کرے وہ دن آئے جب آپکا فون آئے کہ میرا ایک سپورٹر آرہا ہے اسکو کھال بنا دو یا اس کاشتکار کو پانچ ایکڑ کھال زیادہ بنا دو لیکن ہماری تعیناتی کے دو سال کے دوران ان ایم این ایز کا فون ایسا نہ آیا بلکہ کھال کی تعمیر روکنے ، فلاں شخص کی پلی نہ بنانے اور نکہ بند کرنے کے پیغامات ضرور ملے ، یہ دو علاقوں کی عوام کے رویے تھے کہ ٹو ایل خانپور نہر اور ٹو ایل غازی کے علاقہ میں کاشتکار ہماری منتیں کررہے ہوتے تھے کہ کھال کی تعمیر زیادہ سے زیادہ کی جائے ، اور ہمارے افسران کی آمد پر انکا مطالبہ ایک ہی ہوتا تھا کہ ایک ایکڑ، دو ایکڑ پختہ کھال کی تعمیر میں اضافہ کردیں ، ایک دوسرے کے واجبات ادا کر دیتے تھے کہ سرکاری کام میں رکاوٹ نہ آئے ، یہی بات پھر ہیڈ بکائنی کے ڈاہا برادری میں دیکھی گئی ، باقی جتوئی میں ساری قومیں سردار تھیں ، لغاری ، جتوئی ، مستوئی ، گوپانگ قوم کے لوگوں سے گفتگو بھی احتیاط سے کی جاتی تھی کہ ابھی ڈینبھو کی طرح (بھڑ) جائیں گے۔ ۔وہاں کے لوگوں کی نفسیات سمجھنے سے ہم نے بھی ڈاہا قوم کی خدمت جاری رکھی اور انکے متعدد کھال تعمیر کئیے ۔۔۔۔۔ ان دنوں ہیڈ بکائنی پر ایک کام دیکھا کہ ایک گاڑی آتی اور مختلف دکانداروں ، آڑھتی ، کھاد ڈیلرز ، پٹرول پمپس سے کیش رقم اکٹھی کرتی اور انکے اکاؤنٹ میں رقم ٹرانسفر کر دیتی ، ہم حیران ہو گئے کہ یہ کیا کاروبار ہے ، بعد میں علم ہوا کہ یہ بھی ایک کاروبار ہے ملتان سے بڑی پارٹیز آتی ہیں اور مارکیٹ سے کیش اٹھا کر انکی پیمنٹ اکاونٹس میں ٹرانسفر کرتی ہیں ، یہ بھی ایک مافیا تھا جو ہمیں بہت عرصے بعد سمجھ آئی ، دراصل یہ کالے دھندے والے لوگ ہوتے جو بلیک منی کو سفید کرتے ، مارکیٹ سے کیش اٹھا لیتے اور پٹرول پمپس ، تاجر اور فیکٹریوں کے اکاؤنٹس میں رقم ٹرانسفر کر دیتے جس سے وہ اپنا کاروبار دکھاتے کہ انکا بزنس یہ ہے ۔۔ پرویز مشرف کی حکومت کا زوال شروع ہوچکا تھا اور پاکستان میں پیپلز پارٹی ، پنجاب میں ن لیگ حکومتیں بنا چکیں تھیں اور ان حکومتوں کو ہر وہ ترقیاتی منصوبہ فضول اور ناکارہ لگنا شروع ہو گیا تھا جو پرویز مشرف دور میں شروع ہوا تھا ، اعلی سطح پر اس پراجیکٹ کی فنڈنگ روک لی گئیں ، تنخواوں کی دستیابی بھی ناممکن تھی، کھالوں کی تعمیر سست روی کا شکار ہوگئیں اور متعدد کھالہ جات فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث روکنے پڑے ، تمام ملازمین بے چینی کا شکار ہوگئے ، اس دوران واٹرمنیجمنٹ کا ڈائریکٹر جنرل چوہدری مشتاق احمد گل جو عرصہ سے موجود تھا کی ریٹائرمنٹ ہوگئی ، نئے ڈی جی کے لئیے دو سینئیر افسران اشرف علی گل اور لیہ میں ایی ڈی او زراعت مفتی عبد المجید میں تعیناتی کے لئیے مقابلہ شروع ہو گیا ، لیہ سے ملک احمد علی اولکھ وزیر زراعت تھے اور مفتی عبد المجید کو ڈائریکٹر جنرل واٹرمنیجمنٹ لگا دیا گیا ، انہوں نے لاہور دفتر سنبھالتے ہیں نیشنل پروگرام کی طرف توجہ نہ دی بلکہ پرویز مشرف حکومت کے دور میں لیہ ، بھکر، خوشاب کے اضلاع میں ایک زیر التوا پراجیکٹ گریٹر تھل کینال کامنڈ ایریا ڈویلپمنٹ فیز 1 پر توجہ دی اور اسکو لانچ کردیا گیا ، ۔۔۔۔۔۔ جاری ہے