دنیا اس وقت غیر یقینی حالات اور بدلتے ہوئے عالمی منظرنامے سے گزر رہی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ سے جنوبی ایشیا تک طاقت کا توازن تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والا "اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدہ” (SMDA) نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات کو ایک نئی جہت دے رہا ہے بلکہ خطے میں امن، استحکام اور طاقت کے توازن کے لیے بھی فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔

وزیرِ اعظم پاکستان محمد شہباز شریف کے حالیہ دورۂ ریاض کو سفارتی دنیا میں غیر معمولی اہمیت دی جا رہی ہے۔ سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیرِ اعظم شہزادہ محمد بن سلمان نے قصرِ یمامہ میں وزیرِ اعظم کا شاہانہ استقبال کیا۔ سعودی شاہی پروٹوکول کے ساتھ گھڑسواروں کی پیشوائی اور سعودی مسلح افواج کی جانب سے پیش کیا گیا گارڈ آف آنر اس بات کا ثبوت تھا کہ یہ دورہ محض رسمی ملاقات نہیں بلکہ ایک تاریخی موڑ ہے۔
وفود کی سطح پر ہونے والے مذاکرات میں پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت شریک تھی، جن میں نائب وزیرِ اعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر، وزیرِ دفاع خواجہ آصف، وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب، وزیرِ موسمیاتی تبدیلی ڈاکٹر مصدق ملک اور معاونِ خصوصی طارق فاطمی شامل تھے۔ اس طرح کے وسیع البنیاد وفد کی موجودگی نے اس تاثر کو تقویت دی کہ بات صرف الفاظ تک محدود نہیں رہے گی بلکہ عملی فیصلے کیے جائیں گے۔

اس دورے کا سب سے اہم پہلو وہ تاریخی معاہدہ ہے جس پر دونوں رہنماؤں نے دستخط کیے۔ "اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدہ” کی روح یہ ہے کہ اگر کسی ایک ملک پر جارحیت کی جاتی ہے تو اسے دونوں ممالک پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ یہ معاہدہ کئی حوالوں سے خطے میں طاقت کے توازن کو نئی سمت دے گا۔ ایک طرف یہ پاکستان اور سعودی عرب کی دفاعی صلاحیتوں کو یکجا کرے گا، تو دوسری جانب یہ پیغام دے گا کہ مسلم دنیا میں اتحاد اب محض ایک نعرہ نہیں بلکہ ایک حقیقت بنتا جا رہا ہے۔ اس معاہدے سے مشترکہ دفاعی مشقیں، انٹیلی جنس شیئرنگ، جدید ہتھیاروں کی فراہمی اور عسکری تعاون جیسے اقدامات کو بھی فروغ ملنے کی توقع ہے۔

پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات تقریباً آٹھ دہائیوں پر محیط ہیں۔ ان تعلقات کی بنیاد مذہبی، روحانی اور برادرانہ رشتوں پر ہے۔ پاکستان کے ہر بڑے سیاسی اور عسکری بحران میں سعودی عرب نے بھرپور تعاون کیا، جبکہ سعودی عرب کو بھی ہمیشہ پاکستان کی حمایت حاصل رہی۔ آج جب مشرقِ وسطیٰ میں یمن، فلسطین اور خلیجی خطے کی صورتحال پیچیدہ ہے اور جنوبی ایشیا میں بھارت کے رویے اور افغانستان کی غیر یقینی کیفیت نئی مشکلات پیدا کر رہی ہے، ایسے میں پاکستان اور سعودی عرب کا یہ معاہدہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
یہ معاہدہ صرف دفاعی پہلو تک محدود نہیں رہے گا۔ دفاعی اتحاد ہمیشہ معیشت اور سفارتکاری پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ پاکستان کو امید ہے کہ سعودی عرب سے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے دروازے کھلیں گے۔ دوسری طرف سعودی عرب کو پاکستان کی افرادی قوت، دفاعی مہارت اور اسٹریٹجک جغرافیائی پوزیشن سے فائدہ ہوگا۔ عالمی سطح پر بھی اس معاہدے کا پیغام واضح ہے: مسلم دنیا کے دو بڑے اور اہم ملک اب زیادہ مضبوط اور قریب ہیں۔ یہ اتحاد امریکہ، چین اور دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات میں بھی نئی راہیں کھولے گا۔

اگر اس معاہدے کو درست حکمتِ عملی کے ساتھ آگے بڑھایا گیا تو نہ صرف خطے میں امن و استحکام کو تقویت ملے گی بلکہ پاکستان اور سعودی عرب عالمی سطح پر بھی زیادہ بااثر کردار ادا کر سکیں گے۔ اس معاہدے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ یہ خطے کے دیگر ممالک کو بھی سوچنے پر مجبور کرے گا کہ آئندہ کے اتحاد اور تعاون کس سمت میں جا رہے ہیں۔
پاکستان اور سعودی عرب کا یہ معاہدہ محض ایک سفارتی دستاویز نہیں بلکہ ایک تاریخی فیصلہ ہے جو آنے والے برسوں میں خطے کی سیاست، معیشت اور سلامتی پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔ یہ بات درست ہے کہ اصل امتحان عملدرآمد کا ہے، مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یہ معاہدہ خطے کے لیے ایک نیا باب کھول چکا ہے۔ دراصل یہ پیغام ہے کہ اگر مسلم دنیا اتحاد کا فیصلہ کر لے تو کوئی طاقت اس کے سامنے نہیں ٹھہر سکتی۔
✍️ تحریر: محمد کامران تھند
