پاکستان، جو پہلے ہی سیاسی عدم استحکام اور معاشی مشکلات سے دوچار ہے، ماحولیاتی بحران کی پہلی صف میں کھڑا ہے۔ اپنی منفرد جغرافیائی ساخت اور محدود وسائل کے باعث یہ ملک عالمی حدت کے اثرات کے لیے غیر متناسب طور پر کمزور ہے۔ بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت، غیر یقینی موسمی پیٹرن اور شدید ماحولیاتی واقعات اب کوئی دور کے خطرات نہیں بلکہ روزمرہ کی سخت حقیقتیں ہیں جن کا سامنا پاکستانی عوام کر رہے ہیں۔
حال ہی میں آنے والے وہ تباہ کن سیلاب، جنہوں نے ملک کے ایک تہائی حصے کو پانی میں ڈبو دیا، ماحولیاتی تبدیلی کی ہولناک طاقت کی سخت یاد دہانی ہیں۔ اس آفت کا معاشی نقصان ناقابلِ یقین تھا، جس میں انفراسٹرکچر، زراعت اور لاکھوں انسانوں کے بے گھر ہونے سے اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ تاہم یہ کوئی الگ واقعہ نہیں تھا؛ بلکہ ماحولیاتی تبدیلی سے جڑے چیلنجز کے ایک بڑے سلسلے کا حصہ ہے جس سے پاکستان کو مسلسل نمٹنا پڑے گا۔
پانی کی کمی ایک اور سنگین مسئلہ ہے۔ شمالی علاقے کے گلیشیئر، جنہیں ملک کے “آبی مینار” کہا جاتا ہے، خطرناک رفتار سے پگھل رہے ہیں۔ یہ صورتحال دوہرا خطرہ پیدا کر رہی ہے: قلیل مدتی سیلاب اور طویل مدتی پانی کی قلت۔ پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی زراعت ہے، جو انہی آبی وسائل پر منحصر ہے۔ کسی بھی رکاوٹ کی صورت میں غذائی تحفظ اور روزگار کے لیے تباہ کن نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلی کے صحت پر اثرات بھی تیزی سے نمایاں ہو رہے ہیں۔ گرمی کی شدید لہریں زیادہ بار بار اور شدید ہو رہی ہیں، جبکہ بدلتا ہوا موسم مختلف بیماریوں کے پھیلاؤ میں اضافہ کر رہا ہے۔ دیہی علاقوں میں رہنے والی کمزور آبادی سب سے زیادہ خطرے میں ہے۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان، جو عالمی کاربن اخراج میں معمولی حصہ ڈال رہا ہے، ماحولیاتی تبدیلی کے سب سے زیادہ نقصانات برداشت کر رہا ہے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ پاکستان جیسے کمزور ممالک کے لیے ماحولیاتی موافقت اور تدارک کی کوششوں میں اپنا کردار ادا کرے۔ تاہم پاکستان کو بھی بیرونی حل کے انتظار کا متحمل نہیں ہونا چاہیے۔ پائیدار ترقی، قابلِ تجدید توانائی اور ماحولیاتی لچک کو ترجیح دینے والی مضبوط قومی پالیسیوں کی فوری ضرورت ہے۔
کارروائی کا وقت یہی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی صرف ماحولیاتی مسئلہ نہیں؛ یہ قومی سلامتی، معاشی استحکام اور انسانی بقا کا معاملہ ہے۔ پاکستان کو اپنے عوام کے تحفظ، قدرتی وسائل کے تحفظ اور پائیدار مستقبل کی تعمیر کے لیے فوری اور فیصلہ کن اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
موسمیاتی بحران کے ساتھ ساتھ ایک اور خطرہ جنم لے رہا ہے: بھارت کی جانب سے آبی وسائل کے معاملے میں جارحانہ رویہ۔ انڈس واٹر ٹریٹی میں پیدا ہونے والے تناؤ اور ڈیموں سے پانی کے بہاؤ کو یکطرفہ طور پر کنٹرول کرنے کی کوششوں نے خطے میں ایک نئی قسم کی جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔ پانی کے بہاؤ میں کسی بھی وقت تبدیلی یا ڈیموں سے اچانک اخراج پاکستان کے لیے شدید خطرہ بن سکتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب موسمیاتی تبدیلی نے بارشوں اور سیلاب کے پیٹرن کو مزید غیر یقینی بنا دیا ہے۔
یہ روش پاکستان کے لیے ایک نیا چیلنج ہے، جو نہ صرف ماحولیاتی سلامتی بلکہ قومی سلامتی سے بھی جڑا ہوا ہے۔ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو ایک جامع قومی آبی حکمتِ عملی اپنانا ہو گی، جس میں ذخیرہ اندوزی کے منصوبے، جدید فلڈ الرٹ سسٹم، سفارتی اقدامات اور بین الاقوامی فورمز پر قانونی چارہ جوئی شامل ہو۔ آبی وسائل کو بطور دباؤ کے ہتھیار استعمال کرنا خطے کے امن اور پاکستان کے معاشی استحکام کے لیے کسی بھی صورت قابلِ قبول نہیں ہونا چاہیے۔
وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی ایک ٹک ٹک کرتی ہوئی بم کی مانند ہے، اور اس کے ساتھ بھارت کی آبی جارحیت کے باعث خطرات کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ وہ اپنی بقا، عوام کے تحفظ اور قدرتی وسائل کے استحکام کے لیے فوری، مربوط اور فیصلہ کن اقدامات کرے۔ اگر مقامی اور عالمی سطح پر اجتماعی کوششیں کی جائیں تو بدترین اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے، مگر عملی اقدامات کے لیے کھڑکی تیزی سے بند ہو رہی ہے۔
تحریر: محمد کامران تھند