ان دنوں گریٹر تھل کینال کمانڈ ایریا ڈویلپمنٹ کا کام بند ہوگیا تھا ، تنخوائیں بھی نہیں مل رہیں تھیں ، اور تمام ملازمین کو نئے پروجیکٹ پیپ کا کہا جارہا تھاکہ آپکو ادھر ایڈجسٹ کیا جائے گا ، ضلعی حکومت اور ملک غلام حیدر تھند کو ترقیاتی فنڈز ملنا شروع ہو گئے اور الیکشن کی تیاری کا بھی کہہ دیا گیا ، ڈپٹی کمشنر لیہ نے مجھے ٹی ایم اے میں بھیج دیا تھا اور اس میں ملک غلام حیدر تھند نے ہمارا ساتھ دیا ، اس دوران مہر فضل حسین سمرا سے گفتگو و ملاقات بھی ہوتی رہتی تھی سیاسی گفتگو پر گپ شپ رہی وہ ایک سلجھے ہوئے اور سمجھدار سیاستدان تھے ، ایک دن مجھ سے پوچھنے لگے کہ آپ نے الیکشن لڑنا ہے یا آپ نے سیاست کرنی ہے میں نے کہا کہ میں تو سرکاری ملازم ہوں میں نے کیا سیاست کرنی ہے ، کہنے لگے کہ اگر سیاست کرنی ہے یا الیکشن لڑنا ہے تو ان سیاسی جماعتوں کے کارکن بن جاؤ ، ورنہ یہاں کسی سیاسی جماعت کے کارکن کی کوئی اہمیت نہیں ہے اگر صرف کامیابی چاہتے ہو تو کسی شخصیت کے کارکن بن جاؤ ، پھر آپ ترقی کر لوگے ، یہ بات میری سمجھ میں اس وقت تو نہ آئی لیکن بعد میں اچھی طرح ائی، بہرحال ان دنوں میں نے ٹی ایم اے میں کام شروع کیا ساتھ میں واٹرمنیجمنٹ میں بھی کام کرنا تھا کیونکہ تنخواہ واٹرمنیجمنٹ سے لینی تھی میونسپل سے صرف ٹی اے ڈی اے لینا تھا ، دونوں محکموں میں بوقت کام چلتا رہا ، اس دوران ملک غلام حیدر تھند کے قریب رہنے ، انکی سکیموں پر مشاورت کرنا ، سکیموں کی تکمیل کی رپورٹ دینا ، کسی سکیم کی تبدیلی یا فنڈز کی دستیابی بارے گفتگو سے علم ہوا کہ ملک غلام حیدر تھند ایک باصلاحیت ایڈمنسٹریٹر و سیاستدان ہیں ، چونکہ ہم سپورٹران تو پیدائش سے ہی انکے تھے کیونکہ والد صاحب انکو ووٹ دیتے اور انکی الیکشن مہم چلاتے تھے لیکن ان دنوں ہم چھوٹے تھے ، اور تعلیم حاصل کررہے تھے ، بعد میں ہماری نوکری مظفر گڑھ میں رہی ، بطور برادری ملاقات تو رہتی تھی لیکن اس طرح بلواسطہ ملاقاتیں کم ہی ہوتی تھیں ، یہ کام بڑے بھائی صاحبان سنبھالتے تھے لیکن اس الیکشن میں بڑے بھائی مہر شفیق تھند صدر فیڈریشن آف پرائیویٹ سکولز انکو مکمل سپورٹ کررہے تھے ۔ میں نے ملک غلام حیدر تھند کا اس دور کا جوکہ کچھ ماہ پر مشتمل تھا ڈویلپمنٹ اس انداز میں کرائی کہ الیکشن کمیشن کی پابندی سے پہلے پہل سکیمیں مکمل کردیں ، الیکشن شروع ہوا تو رات کو ہم ملک غلام حیدر تھند کا کوٹھی قریشی کے مخدوم توقیر قریشی اور غلام مصطفی قریشی کے ساتھ ووٹ مانگتے ، اس دوران تحریک انصاف میں بابر خان کھتران نے قومی اسمبلی کا ٹکٹ حاصل کرچکے تھے انکا بلوچ اڈہ پر جلسہ تھا ہم بھی اس جلسے کو دیکھنے چلے گئے تو راستے میں رمضان بابر ضلعی صدر تاجر ونگ تحریک انصاف ، زاہد الرحمن خان تحصیل صدر تحریک انصاف ، و دیگر عہدے دار تحریک انصاف جو اس وقت بنے ہوئے تھے سے ملاقات ہو گئی اور ہم اکٹھے جلسہ گاہ میں داخل ہوگئے، تو وہاں تقاریر و سپیکر پر ہر اس ممبر و سپورٹر کو ویلکم کیا جارہا تھا جو بابر خان کے ساتھ پیپلز پارٹی سے آئے تھے اور وہ اس وقت تحریک انصاف کے سینئیر راہنما و کارکنان بنے ہوئے تھے ، تحصیل صدر لیہ اور تاجر ونگ کے صدر کو کسی نے نہ ویلکم کیا اور نہ کسی نے کرسی دی ، ہم کچھ دیر بعد واپس نکلے تو اعلان ہوا کہ ہم فلاں سنئیر ممبر تحریک انصاف کھتران ، فلاں کھتران ، فلاں سردار کو خوش آمدید کہتے ہیں ، اگلے دن مجھے مہر فضل سمرا کی بات یاد آئی کہ اس نے کہا تھا کہ کسی شخصیت کے کارکن بن جاؤ۔ میں سیدھا بھائی شفیق کو ملا اور کہا کہ یار تحریک انصاف سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں ہم تو ملک غلام حیدر تھند کے کارکن ہیں بس اب اسے کے ساتھ ہیں ، بھائی شفیق نے کہا میں تو پہلے ہوں اور سب کو یہی کہتا ہوں ، بہرحال اس دوران ملک غلام حیدر تھند نے سفیق بھائی کی سیاسی منیجمنٹ اور ہماری کام کی رفتار سے معترف ہوا تو الیکشن کی بہت سی زمہ داریاں دے دیں ، اوپر سے حکومت بھی ن لیگ کی تھی اور ہم ملازم بھی سرکاری تھے توسب کام اکٹھے چلتے رہے ، اس دوران ملک غلام حیدر تھند کو عدالتوں نے ایک دن الیکشن لڑنے کی اجازت دیتیں اگلے دن روک دیتی ، اس دوران الیکشن کا ماحول کافی مختلف تھا عوام کی جانب سے ملک غلام حیدر تھند کے جلسے جلوسوں کا ڈنکا بج رہا تھا لیکن شاید قدرت کو کچھ اورمنظور تھا کہ الیکشن سے ایک دن قبل سپریم کورٹ نے ملک غلام حیدر تھند کا الیکشن لڑنے سے روک دیا اور الیکشن کمیشن کو احکامات دئیے کہ انکے ووٹ نہ گنے جائیں ،ملک غلام حیدر تھند نے مہر فضل سمرا کی حمایت کا اعلان کیا اور ہم نے انکو ووٹ دیا ، قومی اسمبلی کا ووٹ پیر ثقلین کو دیا ، الیکشن میں چوہدری اشفاق احمد جیت گئے ۔ اس دوران پنجاب میں ن لیگ کی حکومت پکی ہوگئی ، قومی اسمبلی میں بھی نواز شریف وزیراعظم بن گئے ، واٹرمنیجمنٹ کا پراجیکٹ گریٹر تھل کینال کو 23 جون 2013 کو ہمیں نوٹسز ملے کہ 30 جون 2013 سے آپکا پراجیکٹ ختم کیا جارہا ہے آپکی نوکری ختم کردی گئی ہے آپ مزید کسی قسم کا استحقاق نہیں رکھتے ، ان سات دنوں میں ہم سے سرکاری سامان لیول سیٹ، فیتے ، و دیگر جو تھا واپس لے لیا گیا ، اور ہماری درخواستیں ، نوکری کی اپیلیں سب ردی کی ٹوکری میں پھینک دی گئیں ان دنوں دفتر کے عملہ افسران و مستقل کا ایسا ہو گیا جیسے ہم کوئی نزدیکی ملک بھارت سے آئے ہوئے ہوں اور دفتر میں ہمارے ساتھ بیٹھنا ، بات کرنا بھی گوارا نہ تھا ۔۔۔۔۔۔ ان دنوں ہم نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔ جو کسی کام نہ آیا۔ جاری ہے۔