23 جون 2013 کو ہمیں نوٹسز ملے کہ محکمہ واٹرمنیجمنٹ نے گریٹر تھل کینال کمانڈ ایریا ڈویلپمنٹ پراجیکٹ کو بند کردیا ہے اور تمام ملازمین کو 30 جون 2013 تک مدت ملازمت ہے اسکے بعد فارغ ہیں اس پر ہم نے غور وفکر شروع کردی ، پریس کلب لیہ کے سامنے احتجاجی کیمپ لگایا ، ضلعی انتظامیہ کے بس میں کچھ نہیں تھا ، دوستوں کے مشورے پر ہم لوگوں نے ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن کردی اس وقت کے ہائیکورٹ سے 3 لاکھ روپے فیس مقرر ہوئی اور کوئی پچاس ہزار روپے دیگر اخراجات کی مد میں دئیے ، یہاں پہنچ کر ہمیں علم ہوا کہ لیہ کے ملازمین ہائیکورٹ ملتان بینچ میں دائر کرسکتے ہیں بھکر اور خوشاب کے لوگ یہاں دائر نہیں کرسکتے بلکہ وہ لاہور بینچ سے رجوع کریں۔ بہرحال ہم کوئی 9 ملازمین نے ملتان ہائیکورٹ بینچ سے رجوع کرلیا 27 جون کو کیس دائر کیا 28 جون کی پیشی لگی اور ہم تمام ملازمین پہنچ گئے ہمارا وکیل سابق صدر بار کونسل ہائیکورٹ تھے ، اور وہاں منصور علی شاہ جسٹس ہائیکورٹ کی عدالت میں شنوائی تھی ، عدالت نے ہمارے وکیل کو سنا اور جسٹس صاحب نے کہ کہ آپکو سٹیٹس کو چاہئیے وہ میں دے دیتا ہوں باقی گورنمنٹ سے جواب طلب کرلیتے ہیں جو وکیل نے ہمیں بتایا ، بہرحال ہم اطمینان میں ہوئے کہ چلو سٹے مل گیا لیکن جب شام کو ہمیں کورٹ آرڈر ملے تو کورٹ نے واٹرمنیجمنٹ کی ہائیر اتھارٹی سے دو ماہ میں جواب طلب کیا تھا ہمارا سٹے کا زکر ہی نہیں تھا ، وکیل سے پوچھا اس نے کہا کہ ایسے ہوگیا ویسے ہوگیا دو ماہ بعد واٹرمنیجمنٹ نے جواب دیا کہ پراجیکٹ ختم ہوگیا ہے ، ہمارے پاس نشستیں نہیں ہیں اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ن لیگ کی گورنمنٹ ہے ابھی وہ بحال ہوئے ہیں جب انکے پاس نشستیں ہی نہیں ہیں تو آپکو کہاں سے دیں اور کیس خارج کردیا ، ہمارے وکیل صاحب باہر آئے اور شام کو ہمیں چیمبر میں ملنے کو کہا ہم سارا دن ملتان کی گلیوں بازاروں میں بھٹکتے گزار دی اور شام کو وکیل صاحب نے نیا کیس دائر کرنے کا کہا اور اسکی فیس تین لاکھ روپے مانگ کی ہم نے کہا جو پچھلی فیس ہے اسکا تو کیس ایک پیشی پر ختم ہوگیا انہوں نے کہا نئی فیس دو گے تو نیا کیس لگے گا ورنہ جاو، ان دنوں ہم بے روزگار ہوچکے تھے وکیل فیس کہاں سے لاتے پھر ایک لاہور سے وکیل آیا کسی دوست کا تعلق دار تھا اسنے ڈبل بینچ میں کیس دائر کردیا ، کوئی دو سال میں ایک یا دو پیشی لگی اور ادھر پھر منصور علی شاہ کے پاس کیس لگا اس نے دوبارہ خارج کردیا اب وکیلوں نے بتایا کہ یہ کیس سپریم کورٹ میں لگے گا وہاں اپیل کرنی ہو گی اور یہ کیس لاہور بینچ سپریم کورٹ میں کردیا اس وقت تینوں اضلاع کے سابقہ ملازمین اکٹھے ہوئے تو سپریم کورٹ وکیل کی فیس پانچ لاکھ روپے تھی وہ مل جل کر ادا کردی ، کیس دائر ہونے والے دن ہی ہمارا سینئیر وکیل سپریم کورٹ دل کے عارضہ میں ہسپتال جا پہنچے اور دو دن بعد انتقال کرگئے ساتھ میں ہماری فیس بھی لے گئے اللہ اسکو جنت میں اعلی مقام عطا کرے۔ بعد ازاں اسکے جونئیر وکیلوں سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے مزید تین لاکھ روپے لے کر 2015 میں کیس سپریم کورٹ میں دائر کردیا ، پانچ سال ہمارا کیس ہی سپریم کورٹ میں نہ لگا پھر کوئی ایک پیشی لگی ہمارے جانے سے پہلے ہی وہ لیفٹ اوور ہو گیا تھا ، پھر نکلوانے کے لئیے ایک لاکھ روپے فیس دی گئی اور پھر کیس ایک سال بعد بعدالت سید منصور علی شاہ میں لگا ناجانے کیا ہو رہا تھا کہ ہمارا ہر بار کیس اسی جسٹس کے پاس لگ رہا تھا ، انہوں نے جب فائنل دیکھی تو کیس ہی خارج کردیا نا ہمارے وکیل کی سنی نا ہماری ۔۔ ہم اپنا منہ سا لے کر باہر آگئے۔……………………………………………………………………………………………………………………………………………….