میرے بڑے بھائی مہر نور محمد تھند، ہم تمام بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ وہ گورنمنٹ ہائی اسکول ہیڈ محبوب، رحمان آباد اور گورنمنٹ ایم سی ہائی اسکول لیہ میں بطور استاد (EST) تعینات رہے۔ تدریس کے ساتھ ساتھ وہ مطالعہ، نایاب کتابوں کے ذخیرے اور صحافت میں بھی غیر معمولی دلچسپی رکھتے تھے۔ وہ اپنے وقت میں ہفت روزہ اخبار "لیہ” کے اجرا اور اشاعت کے ذریعے علاقے میں ایک نمایاں شناخت رکھتے تھے۔
یہ وہ وقت تھا جب صحافت صرف لکھنے تک محدود نہیں تھی بلکہ خبروں کی کٹنگ، پیسٹنگ، پرنٹنگ اور پبلشنگ جیسے محنت طلب مراحل سے گزرنا پڑتا تھا۔ ان کا شائع کردہ اخبار مقبول تھا، جس میں پولیس، محکمہ تعلیم، صحت، زراعت، تحصیل و ضلع کونسل سمیت دیگر محکموں اور سیاسی شخصیات کے حق یا مخالفت میں جرأت مندانہ خبریں شائع ہوتی تھیں۔ اخبار اتنا مقبول تھا کہ ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو جاتا۔
جب میں تیسری جماعت میں تھا، پیر سواگ شریف کے عرس کا موقع آیا۔ ہم اہلِ خانہ کے ساتھ مریدین کی حیثیت سے ٹریکٹر ٹرالی پر سوار ہو کر عرس میں شریک ہوئے۔ اسی دوران بازار میں بھائی نور محمد سے ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے مجھے پانچ اخبارات دیے اور کہا کہ تین روپے فی اخبار کے حساب سے بیچو، جو پیسے ملیں گے، وہ تمہارے جیب خرچ کے ہوں گے۔
ہم نے اخبار بیچنا شروع کیا، مگر دوپہر تک صرف ایک اخبار بکا اور تین روپے ملے۔ انہی پیسوں سے ہم نے کھیرنی کی ایک پلیٹ خریدی، جو اس وقت ایک روپے میں دستیاب تھی۔ بعد میں دو مزید اخبارات بکے، اور یوں ہمارے پاس کل نو روپے آ گئے۔ اس وقت، جب پانچویں جماعت تک ابا جی سے ملنے والے جیب خرچ کی زیادہ سے زیادہ حد دو روپے تھی، نو روپے ایک عیاشی محسوس ہوئے۔
بھائی نور محمد اور حفیظ بھائی سے پانچ دس روپے لینے میں بھی ہم خاصے ماہر تھے، جبکہ میٹرک کے بعد اس ’کارِ خیر‘ میں شفیق بھائی کا حصہ زیادہ ہو گیا۔ دورانِ مڈل، بھائی نور محمد کے اخبار میں ہماری ڈیوٹی بھی لگنے لگی۔ ہمیں قینچی یا گوند پکڑا دی جاتی، جبکہ بھائی خبروں کی کٹنگ کر کے بٹر پیپر پر چپکاتے۔ یہ سب کچھ چھوٹی سی 6×10 کی میز پر ہوتا، جس کے اوپر ایک ہزار واٹ کا بلب لگا ہوتا، جس کی تپش میں کام کرنا آسان نہ تھا۔ اکثر رات کے دو بج جاتے۔
اس کام کے بدلے میں اخبار میں ہماری تصویر اور نام شائع ہوتا، جس سے ہمیں بہت خوشی ملتی، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہمیں صحافت سے بیزاری محسوس ہونے لگی۔ یہ کیسا کام ہے جس میں ساری رات جاگنا پڑے، بلب کی گرمی برداشت کرنی پڑے، اور محنت کے باوجود کوئی فوری فائدہ نہ ہو؟ بہرحال، مڈل کلاس تک ہم نے یہ سب کام بامر مجبوری جاری رکھا۔
میٹرک کے بعد ہم نے ٹیکنالوجی کالج سے ڈپلومہ مکمل کیا اور پھر سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔ نو سالہ نوکری کے دوران ہم صحافت سے کوسوں دور رہے۔ بعد ازاں مظفرگڑھ سے تبادلہ ہو کر لیہ آنا ہوا، تو ہماری تعیناتی منکیرہ، پٹی بلندہ، گوہر والا، خانسر، نور پور تھل اور دربار جنجوں شریف جیسے علاقوں میں ہوئی۔
یہاں ہمیں پہلی بار بھائی نور محمد تھند کی صحافتی شناخت، تاریخی تحقیق اور ان کے اولیائے بھکر و تاریخِ بھکر کے کام کی بدولت عزت و محبت ملی۔ دربار جنجوں شریف کے گدی نشین پیر صاحبان اور مریدین کی مہمان نوازی نصیب ہوئی۔ بھائی کی تحقیق کے دوران ایک واقعہ یاد آتا ہے، جب وہ تاریخ کی تلاش میں ایک چرواہے کے پاس رات گزار رہے تھے۔ بعد میں، اسی علاقے میں ہمارے دو ہفتوں کے سروے کے دوران وہی چرواہا روزانہ بغیر معاوضہ بکریوں کا دودھ لا کر دیتا اور کہتا، “مہر نور محمد کا بھائی ہمارے علاقے میں سروے کر رہا ہے، وہ یہ نہ سمجھے کہ یہاں کوئی اس کی خدمت نہیں کرتا۔”
ایسی محبت، خلوص اور عزت وہاں ملی جہاں پانی بھی نایاب ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر ہمیں ایک بار پھر کتابوں اور صحافت کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔
2013ء میں سرکار نے ہمارے پراجیکٹ کو ختم کر دیا، جس کے نتیجے میں 56 سب انجینئرز بےروزگار ہو گئے۔ یہ کہانی جستجو زندگی کے صفحات پر پڑھ سکتے ہیں۔ ۔ 12 مارچ کی صبح ہمارے لیے ایک مشکل ترین وقت تھا جب یہ اطلاع ملی کہ بھائی نور محمد اب اس دنیا میں نہیں رہے۔
جانے والے کبھی واپس نہیں آتے، لیکن اپنی یادیں ضرور چھوڑ جاتے ہیں۔ ان کے بعد "اخبار لیہ” ایک دوست شائع کر رہے تھے، مگر ان کی وفات کے بعد وہ بھی بند ہو گیا۔ خاندان میں اب کسی کو صحافت سے خاص دلچسپی نہ رہی۔
جنوری 2015ء میں کروڑ لعل عیسن میں ایک پرائیویٹ اسکول کا آغاز کیا۔ کچھ ہی دن بعد وہاں کے ایک صحافی، جو آج بھی متحرک ہیں، اسکول آ پہنچے۔ پھر اسکول میں اے ای او، ڈپٹی ڈی او تعلیم کی آمد و رفت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
قصہ مختصر، دوپہر دو بجے ہمیں اطلاع ملی کہ آپ نے ڈپٹی ڈی او تعلیم سے بدتمیزی کی ہے، لہٰذا آپ اور پرنسپل کے خلاف مقدمہ کے اندراج کی سفارش کی جا رہی ہے، اور سی ای او تعلیم نے ڈی پی او کو خط بھی بھیج دیا ہے۔ اس وقت فیس بک نئی نئی آئی تھی، کسی نے وہ خط سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر دیا۔ تب ہمیں صورتحال کا علم ہوا۔
ہم نے فوراً سی ای او سے انکوائری کمیٹی کی تشکیل کا مطالبہ کیا اور ویڈیو ثبوت سے یہ بات ثابت کی کہ اے ای او یا ڈپٹی ڈی او سے کسی بھی بدتمیزی کا واقعہ نہیں ہوا۔ کچھ دن بعد، اسی صحافی کی طرف سے ایک اور حملہ برداشت کرنا پڑا۔ پھر ایک اشتہار کی فرمائش بھی موصول ہوئی۔
تب کروڑ کے ایک نوجوان صحافی دوست، آیت اللہ نیازی، نے ہمیں مشورہ دیا کہ یہاں صحافتی شناخت ظاہر کرنا ضروری ہے، ورنہ یہ مافیا تنگ کرتا رہے گا۔ انہی کی مشاورت سے ہم نے دوبارہ اخبار "لیہ” کی اشاعت شروع کی، رائل نیوز جوائن کیا، اور لاہور سے شائع ہونے والے قومی اخبار "روزنامہ انصاف” میں بطور بیوروچیف صحافت کا باقاعدہ آغاز کیا۔