صحافت کے میدان میں قدم رکھا تو سب کچھ نیا، اجنبی اور مشکل محسوس ہوا۔ قومی اخبار اور ٹی وی چینل کے لیے بطور بیوروچیف کام کا آغاز کیا تو خبر لکھنے سے لے کر ویڈیو بنانے، اور اس کی ایڈیٹنگ تک ہر چیز ایک پہاڑ جیسی لگتی تھی۔
روزانہ کروڑ لعل عیسن جانا، پھر واپسی پر لیہ شہر کا چکر لگانا معمول تھا، اس امید پر کہ شاید کوئی خبر مل جائے۔ مگر کئی دنوں تک کوئی خبر نہ ملی۔ صحافتی حلقوں میں بھی اجنبیت کا احساس تھا — نہ کوئی راہنمائی کرتا، نہ ہی کسی خبر بارے آگاہی دیتا۔ کئی ہفتے اسی طرح گزر گئے۔
مایوسی بڑھنے لگی تو ہم نے مقامی اخبارات سے خبریں لے کر قومی ادارے کو بھیجنا شروع کر دیں۔ ایک دن بھکر سے سیف الرحمن صاحب (رائل نیوز اور روزنامہ انصاف کے بیوروچیف) کا فون آیا۔ انہوں نے ہمیں بھکر بلایا۔ وہ پہلے صحافی تھے جنہوں نے خبر کے بنیادی اصول، ضابطے اور ذرائع سے آگاہ کیا۔
اسی دوران ہم نے رائل نیوز پر پی ٹی سی ایل کے ذریعے ٹِکرز لکھوانا شروع کیے، اور خبروں کی تصاویر فیس بک پر پوسٹ کرنا بھی سیکھ لیا۔ انہی دنوں محسن عدیل چوہدری کے اغواء کا واقعہ پیش آیا، جس پر احتجاجی فورم اکٹھا ہوا اور مختلف صحافیوں سے رابطے بننے لگے۔
ابتدائی دنوں میں ہمیں اکثر معلوم ہی نہیں ہوتا تھا کہ پریس کانفرنس کب اور کہاں ہو رہی ہے۔ اگلے دن اخبار میں خبر پڑھ کر پتہ چلتا کہ کوئی سرکاری تقریب یا بریفنگ ہو چکی ہے، اور ہمارے ساتھی صحافی بغیر اطلاع دیے وہاں جا چکے تھے۔ اس احساس محرومی کے دنوں میں پہلی مرتبہ ملک فیض بھلر نے ہمیں اطلاع دی کہ ڈپٹی کمشنر میڈیا نمائندگان سے ملاقات کریں گے۔ ہم کیمرہ مین کے ساتھ مقررہ وقت پر پہنچے تو بعض صحافیوں کی جانب سے مذاق کا سامنا کرنا پڑا: "نیا آیا ہے، کیمرہ اٹھائے پھر رہا ہے!”
اس دن کے بعد سے، بھکر سے سیف الرحمن اور لاہور سے رانا کامران علی نے ہمیں مسلسل اسائنمنٹس دینا شروع کر دیے۔ ان کی راہنمائی میں ہم نے اداروں سے خبریں اکٹھی کرنا، رپورٹس تیار کرنا اور فوٹو کوریج کرنا سیکھا۔
روزنامہ انصاف نے جب سرگودھا ڈویژن اور لیہ کے لیے الگ صفحہ مختص کیا، تو کام کا دائرہ مزید بڑھ گیا۔ اب ہمیں مختلف محکموں جیسے پولیس، تعلیم، زراعت، صحت اور کالجز سے متعلقہ خبریں اکٹھی کرنی پڑتی تھیں۔ اس عمل نے ہمیں سرکاری اداروں تک رسائی دی اور سیکھنے کا دائرہ وسیع کیا۔
اسی دوران کروڑ سے خضر سرگانی سے ملاقات ہوئی، جو رائل نیوز کے نمائندہ تھے۔ انہوں نے الیکٹرانک میڈیا کے کئی نئے پہلوؤں سے روشناس کرایا۔ بعد ازاں ہمیں لاہور سے ہدایت ملی کہ لیہ کے ہر تھانے کی حدود سے ایک نمائندہ مقرر کریں۔ چوک اعظم سے صابر عطا تھہیم ایک نوجوان شہباز قریشی کو لے کر آئے۔ اسے رائل نیوز میں ایڈ کیا۔ کوٹ سلطان سے سندر سکول کے پرنسپل اظہر بھٹی نے محسن رضا کو بطور نمائندہ پیش کیا، اور انہیں بھی ٹیم میں شامل کیا گیا۔
[