رائل نیوز پر خبروں کے نشر ہونے سے مقامی سطح پر ایک نئی شناخت قائم ہوئی۔ انہی دنوں واٹس ایپ کا استعمال عام ہونا شروع ہوا، اور فیس بک کے ذریعے بھی خبریں پوسٹ کی جانے لگیں۔ جب خبریں آن ایئر ہونے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی گردش کرنے لگیں تو عوام میں تیزی سے پذیرائی ملی۔ علاقے کے لوگ خبروں کے سلسلے میں رابطہ کرنے لگے، اور سرکاری و غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے تقریبات کی کوریج کے لیے باقاعدہ دعوتیں آنے لگیں۔
اسی دوران ادارے کی جانب سے اجازت ملی کہ پرائیویٹ تقریبات کی کوریج کا معاوضہ لیا جا سکتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ اس وقت ہمیں کسی معاوضے کی امید نہیں تھی۔ ہم شوق سے کام کرتے تھے، دل سے صحافت کو اپنایا تھا، اسی لیے زیادہ تر تقریبات کی کوریج بلا معاوضہ کرتے، اور ادارے کو بھی اپنی جیب سے ادائیگی کرتے۔ ان دنوں جو جذبہ تھا، وہ کسی مالی فائدے سے بڑھ کر تھا۔ ایک جنون کی سی کیفیت تھی کہ بس کچھ نیا کرنا ہے، سیکھنا ہے، اور میدان میں اپنا نام بنانا ہے۔
یہ سلسلہ یونہی جاری رہا، تو صحافتی حلقہ بھی وسیع ہوتا گیا۔ مہر زاہد واندر اور فہیم منجوٹھہ کے ذریعے محمد آصف کھرل کو رائل نیوز کی نمائندگی دی گئی۔ فتح پور سے چوہدری محمد شفیق کے توسط سے انور شاہ الیکٹرانک میڈیا میں آئے۔ چوبارہ سے سید کوثر شاہ کی کاوشوں سے رضوان چیمہ کو ٹیم میں شامل کیا گیا، پیر جگی سے شاہد کھرل اور کروڑ سے محمد آصف نزیر بھی رائل نیوز کا حصہ بنے۔ اسی طرح کوٹ ادو سے اسامہ بختیار خان اور چوک سرور شہید سے ابوہریرہ کو بھی بطور رپورٹر شامل کیا گیا۔
یوں لیہ ریجن میں رائل نیوز کی ایک متحرک اور منظم ٹیم وجود میں آگئی۔ ٹیم کے پھیلاؤ کے ساتھ خبروں کی کوریج اور نشر ہونے کی رفتار میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ اس دوران پولیس ڈیپارٹمنٹ میں میڈیا ترجمان کی ذمہ داری ایک جوان اور فعال پولیس افسر، عرفان فیض، نے سنبھالی۔ انہوں نے لیہ پولیس کی ہر سرگرمی سے متعلق میڈیا نمائندگان کو بروقت بریفنگ دی، اور الیکٹرانک میڈیا کی باقاعدہ مانیٹرنگ کا آغاز کیا۔
رائل نیوز کی ٹیم کو ترجیحی بنیادوں پر معلومات فراہم کی جانے لگیں۔ دفتر ترجمان لیہ میں رائل نیوز کے لیے علیحدہ اسکرین نصب کی گئی، جس پر ہماری نشر ہونے والی ہر خبر پر پولیس کی جانب سے فوری ردعمل ہوتا۔ اس وقت کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) محمد علی ضیاء کی تعیناتی ایک خوشگوار تبدیلی ثابت ہوئی۔ انہوں نے محکمہ پولیس میں مختلف اصلاحات کیں، پولیس ویلفیئر پر توجہ دی، اور عوام کے ساتھ پولیس کے رویے کو بہتر بنایا۔ ان کے اقدامات سے ہمیں پولیس کا ایک مثبت اور عوام دوست چہرہ دیکھنے کو ملا۔
وقت کے ساتھ ساتھ صحافتی ٹیم میں کچھ پرانے دوست دیگر اداروں سے وابستہ ہوگئے، جبکہ کئی نئے اور باصلاحیت چہرے ٹیم کا حصہ بنے۔ کروڑ لال عیسن سے سید غلام دستگیر شاہ نے اپنی مکمل ٹیم کے ساتھ رائل نیوز کو جوائن کیا، جس سے ٹیم کی قوت اور کوریج کی استعداد میں مزید اضافہ ہوا۔
اسی دوران ہم نے روزنامہ انصاف لاہور کی لیہ میں ایجنسی حاصل کی۔ اگرچہ یہ ایک نیا موقع تھا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک نیا امتحان بھی۔ پرنٹ میڈیا کی ذمہ داریاں، اشاعت، تقسیم، اور مالیاتی معاملات جیسے متعدد مسائل نے ہمیں گھیر لیا۔ وقت کے ساتھ یہ اندازہ ہوا کہ صرف الیکٹرانک میڈیا ہی نہیں، بلکہ پرنٹ میڈیا میں بھی قدم رکھنا ایک بھرپور عزم اور صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے۔
یوں ہماری صحافتی جدوجہد ایک نئے موڑ پر آ گئی تھی۔ یہ وہ دور تھا جہاں ہم نے نہ صرف رپورٹنگ سیکھی بلکہ ٹیم سازی، تعلقات عامہ، اور ادارتی ذمہ داریوں کا بھی بخوبی تجربہ حاصل کیا۔ رائل نیوز کے پلیٹ فارم سے ایک خواب کی بنیاد پڑ چکی تھی، جو اب مختلف سمتوں میں پھلنے پھولنے لگا تھا۔
تحریر: مہرمحمد کامران تھند