اخبار کی تلاش میں روز کا بیشتر وقت ضائع ہو جاتا، جس سے ذہنی پریشانی مزید بڑھنے لگی۔ روزنامہ انصاف لاہور کے لیے اخبار کی بروقت ترسیل کا کوئی مستقل انتظام نہ تھا۔ اس مسئلے کا عارضی حل یہ نکالا کہ اخبار لاہور سے بھکر منگوایا جائے، وہاں سے کروڑ لال عیسن اور پھر کروڑ سے لیہ لایا جائے۔ لیکن اس نظام میں ایک بڑی خامی یہ تھی کہ اخبار قاری تک دیر سے پہنچتا، اور وقت پر نہ ملنے کی شکایت عام ہوتی۔
اس تاخیر کا براہِ راست اثر ہمارے ماہانہ بلوں پر پڑا۔ کئی قارئین نے بل دینا بند کر دیا، اور یوں ہمیں ہر ماہ ادارے کو 15 سے 20 ہزار روپے اپنی جیب سے ادا کرنا پڑتے۔ صورتحال دن بہ دن مشکل ہوتی جا رہی تھی۔
اسی پریشانی کا ذکر ایک دن ہم نے پروفیسر حفیظ اللہ تھند اور شفیق تھند (پرنسپل پنجاب اسلامیہ سیکنڈری اسکول، لیہ) سے کیا۔ ان دونوں معزز شخصیات نے نہ صرف ہماری بات سنی، بلکہ مسئلے کا عملی حل بھی نکالا۔ گورنمنٹ کالج لیہ کے کئی پروفیسرز اور ان کے قریبی احباب نے اخبار اپنی رہائش گاہوں یا پرائیویٹ اداروں میں لگوانا شروع کیا۔ جو اخبار عام طور پر 12 روپے کا ہوتا، اس کی ماہانہ قیمت 360 روپے بنتی تھی، مگر ان اساتذہ نے ازخود 1000 روپے ماہانہ دینا شروع کیے۔ اس نیک عمل کو پرائیویٹ اسکولز نے بھی اپنایا، اور 500 روپے ماہانہ کی ادائیگی پر اخبار لینا شروع کر دیا۔
رفتہ رفتہ دیگر دفاتر، اسکولز اور اداروں میں بھی دوستوں نے تعاون کیا، اور اخبار کی سرکولیشن بہتر ہونے لگی۔ اس عمل سے ہم لیہ میں روزنامہ انصاف کی تقریباً 100 کاپیاں، کروڑ لال عیسن میں 30، اور کوٹ سلطان میں 20 کاپیاں روزانہ تک پہنچانے لگے۔
اسی دوران طارق یٰسین (اخبار فروش) نے اخبار چھوڑ دیا اور مقامی اخبار سے منسلک ہو گئے۔ ان کے جانے سے لیہ میں اخبار کی ترسیل اور تقسیم میں خلل پڑا۔ ہم ضلعی دفاتر مثلاً ڈپٹی کمشنر آفس، ضلعی پولیس دفتر، انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ اور ڈسٹرکٹ پریس کلب کو بھی اخبار مہیا کرتے تھے، لیکن ان اداروں سے کبھی کوئی ادائیگی نہیں ہوئی۔
کچھ اور دوست بھی اس دوران اخبار کے ساتھ منسلک ہوئے، لیکن کسی نے پندرہ دن کام کیا، کوئی بیس دن، اور کچھ ایک ماہ سے زیادہ نہ ٹھہرے۔ نتیجتاً، ماہ کے آخر میں نہ صرف پیمنٹ غائب ہوتی بلکہ اکثر قارئین کو روزنامہ انصاف کی بجائے کبھی خبریں، کبھی ایکسپریس، کبھی پاکستان اور کبھی کوئی اور اخبار دیا جاتا۔ اس سے سرکولیشن بھی متاثر ہوئی اور بلوں کی وصولی بھی۔
گرمیوں کی چھٹیوں میں اسکولز اور اکیڈمیز بند ہو گئیں، جس کی وجہ سے تین ماہ تک اخبار کی سرکولیشن انتہائی کم ہوگئی۔ ہر ماہ 30 سے 35 ہزار روپے ادارے کو ادا کرنا پڑتے، جو ہم نے مسلسل تین ماہ تک اپنی جیب سے ادا کیے۔ مگر ایک وقت کے بعد مجبوراً ہمیں فیصلہ کرنا پڑا کہ اب مزید یہ بوجھ اٹھانا ممکن نہیں۔
چنانچہ ہم نے سیف الرحمن سیف صاحب اور ڈپٹی ایڈیٹر لاہور روزنامہ انصاف سے معذرت کر لی اور عرض کیا:
او پیاں نیں محبتاں، ساڈے ہتھ کھڑے نیں۔
اس ساری مشقت کے باوجود ایک فائدہ یہ ضرور ہوا کہ ہم روزانہ خبر کی تلاش، دوستوں سے رابطہ اور اخبار میں مستقل اشاعت کے عمل سے گزرے۔ روزنامہ انصاف کے صفحہ تین پر پانچ اور چھ کالمی خبریں شائع ہوئیں، جنہوں نے ہمیں ایک حقیقی صحافی بنا دیا۔ ہم تحقیقاتی خبریں نکالنے کے قابل ہوئے اور پروفیسر حفیظ اللہ تھند کے مشورے پر کالم نگاری کا آغاز کیا۔
کالم نگاری سیکھنے کے لیے ہم پروفیسر ڈاکٹر گل عباس اعوان کے پاس بھی گئے۔ انہوں نے نہایت شفقت سے کہا:
"زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرو۔ کتابیں، کالم، اخبارات پڑھو اور جو کچھ ذہن میں آئے، اسے لکھتے رہو۔ یہی بہترین استاد ہے۔”
اسی دوران ایم سی اسکول کے استاد، نور محمد بھائی کے ہمسائے غلام یٰسین بھٹی سے ملاقات ہوئی۔ وہ ایک ادبی تنظیم بزم فروغ ادب کے روحِ رواں تھے۔ انہوں نے اپنی چند ادبی نشستوں میں مدعو کیا، جہاں ہم نے تقاریر اور مشاعرے سنے۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے بلانا چھوڑ دیا اور ہم نے بھی اپنی مصروفیات کے باعث جانا چھوڑ دیا۔
تاہم، اس ادبی ماحول کے دوران ہمیں جن شخصیات سے ملاقات اور تعارف کا شرف حاصل ہوا، ان میں: سلیم جونی صاحب، شمشاد سرائی، شفقت عابد، خادم کھوکھر، مظہر یاسر، ملک عارش گیلانی، عبدالحکیم شوق، محترم انجم صحرائی، اور پروفیسر مزمل حسین (پرنسپل گورنمنٹ کالج لیہ) شامل ہیں۔ اکثر ملاقاتوں کا وسیلہ پروفیسر حفیظ اللہ تھند بنے، جن کی محبت اور عزت ہمیشہ ہمارے لیے سرمایۂ افتخار رہی۔
روزنامہ انصاف میں ادبی صفحے پر باقاعدگی سے ہمارے کالم شائع ہونے لگے۔ ہفتہ وار تحریریں قارئین تک پہنچنے لگیں۔ ایک دن گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی لیہ میں ہمارے استاد، جناب مطلب یوسف خان صاحب، جو ہمارے دورِ تعلیم (1999-2002) میں مکینیکل ٹیکنالوجی کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ تھے، ہاؤسنگ مارکیٹ میں مل گئے۔
انہوں نے کمال محبت سے کہا:
"آؤ، تمہیں چائے پلاؤں۔”
ہماری کیا مجال کہ استاد کا حکم ٹالیں۔ وہ ملک غلام حیدر تھند کے ساتھ والے گھر میں رہائش پذیر تھے۔ اپنی بیٹھک میں لے جا کر ہمیں بٹھایا، چائے منگوائی اور کہنے لگے:
"تمہارا کالم پڑھا، دل خوش ہو گیا۔ ہمارا شاگرد آج اس مقام پر ہے کہ قومی اخبار میں اس کی تحریریں چھپ رہی ہیں۔ شاباش! لگے رہو۔”
یہ پہلا موقع تھا کہ بھائیوں کے سوا کسی استاد سے ہمیں صحافتی کام پر داد ملی۔ دل کو سکون اور حوصلہ ملا۔ پھر انہوں نے ایک مشورہ دیا…
تحریر: مہر محمد کامران تھند