لیہ پولیس کی جانب سے ملازمین کے بچوں کے لیے پرائیویٹ اسکولوں میں فیسوں میں رعایت کے معاہدے سے کچھ عرصہ قبل، میری ملاقات لیہ کے دو احباب ملک سمیع اللہ اور ملک عامر سے ہوئی، جو اُس وقت شعبۂ صحافت سے وابستہ تھے اور روزنامہ بی بی سی لاہور کے نمائندے کے طور پر کام کر رہے تھے۔ بعد ازاں انہوں نے صحافت کو خیرباد کہہ دیا۔ آج ملک سمیع اللہ شعبۂ میڈیسن سے منسلک ہونے کے بعد این آر ایس پی کے احساس پروگرام میں خدمات انجام دے رہے ہیں، جبکہ ملک عامر اب "لیز” اور "سلانٹی” کے ڈسٹری بیوٹر ہیں۔
انہی کی دعوت پر میری ملاقات میاں سلیمان قیصر سے ہوئی، جو اُس وقت صحافیوں کی ایک قومی سطح کی تنظیم "انٹرنیشنل پاور آف جرنلسٹس” کے مرکزی جنرل سیکریٹری تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ بھی بعد میں صحافت چھوڑ کر پولٹری کنٹرول شیڈ کے شعبے میں منتقل ہوگئے۔ ہماری ملاقات ایک مقامی ہوٹل میں ہوئی جہاں انہوں نے تنظیم میں شمولیت کی دعوت دی۔ اس وقت تنظیم میں:
لقمان اسد ضلعی صدر
سید عمران شاہ
زاہد سرفراز واندر (چیئرمین)
اور دیگر مقامی صحافی بطور عہدیدار شامل تھے
مجھے لیہ میں سینئر نائب صدر کا عہدہ دیا گیا۔
تنظیم کے چیئرمین سردار نسیم حیدر (المعروف تقی حیدر) جو روزنامہ بی بی سی لاہور کے چیف ایڈیٹر تھے، ویب چینل اور ویب سائٹ بھی چلاتے تھے۔ صوبائی صدر فیصل مجیب شامی (روزنامہ یلغار لاہور) تھے۔ دیگر نمایاں شخصیات میں:
غلام دستگیر شاہ (کروڑ)
سیفل ڈھڈی
چوہدری شفیق (فتح پور، سچ نیوز)
مہر حسنین شفیق (روزنامہ پاکستان)
سید عابد فاروقی (صدر پریس کلب کوٹ سلطان و چئیرمین ڈویژن ڈیرہ)
جام اشرف
سے ملاقات ہوئی — ان میں سے چند سے میری پہلی ملاقات اسی تنظیم کے اجلاس میں ہوئی۔
اسی دوران ایک اجلاس میں سید عمران علی شاہ، ایگزیکٹو ایڈیٹر روزنامہ شناور بھی تنظیم کا حصہ بنے۔ وہاں ہم سب نے مل کر طے کیا کہ نئے آنے والے صحافیوں کو سینئرز کی جانب سے نہ تو رہنمائی دی جا رہی ہے، نہ قبول کیا جا رہا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ ایک ایسا فورم قائم کریں جہاں نوجوان صحافیوں کو یکجا کیا جائے اور ان کے لیے تربیتی مواقع فراہم کیے جائیں۔
پہلا قدم یہ اٹھایا کہ ریسکیو 1122 لیہ کے عنایت بلوچ صاحب سے ملاقات کی، اور ان سے گزارش کی کہ ہمیں فرسٹ ایڈ اور ایمرجنسی رپورٹنگ کی تربیت دیں۔ کچھ دوستوں نے اس ایک روزہ تربیت میں حصہ لیا۔
اس کے بعد، بھائی شفیق تھند کی جانب سے "فیڈریشن آف پرائیویٹ اسکولز” کے تعاون سے ایک پیشکش آئی کہ ہم صحافیوں اور اخبار فروشوں کے بچوں کے لیے اسکولوں میں فیس معافی یا رعایت کے تحت داخلے کا بندوبست کریں۔ ہم نے اس مہم کو عملی جامہ پہنایا، اور فیڈریشن کے سو سے زائد اسکولوں نے تعاون کی حامی بھری۔
ہم نے خود مختلف دیہات میں جا کر ایسے بچوں کو تلاش کیا، اور تقریباً 55 بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں داخل کرایا۔ ان میں اکثریت ان بچوں کی تھی جو صحافیوں کے آس پاس کے علاقوں میں مقیم تھے، کیونکہ اس وقت تنظیم کے زیادہ تر صحافی دوست کنوارے تھے۔ بعد ازاں یہی پروگرام تنظیم نے پورے پنجاب میں پھیلا دیا، جس کے نتیجے میں 1000 سے زائد بچوں کے داخلے ممکن ہوئے۔
تنظیم کا زور زیادہ تر سوشل میڈیا پر تھا۔ فیس بک اور ٹویٹر پر ہزاروں ممبران متحرک تھے، جو قیادت کی ایک کال پر "وائرل” سرگرمیوں کا مظاہرہ کرتے۔
اسی دوران، کلورکوٹ میں تنظیم کے ایک عہدیدار نے جنوبی پنجاب کے تمام عہدیداروں کو دعوت دی کہ وہ ایک نئے اخبار کی ایجنسی کا افتتاح کریں۔ ملتان سے جنوبی پنجاب کے صدر اور خرم (ملتان سے) لیہ پہنچے۔ یہاں سے:
میاں سلیمان قیصر
چوہدری شفیق
جام اشرف
ملک سمیع
ملک عامر
مہر حسنین شفیق
سیفل ڈھڈی
غلام دستگیر شاہ
کلورکوٹ کی جانب روانہ ہوئے۔ راستے میں، پنج پیر کے مقام پر اچانک دو گیدڑ گاڑی کے سامنے آ گئے، جس سے کلٹس گاڑی کا ریڈی ایٹر لیک ہو گیا اور بمپر بھی ٹوٹ گیا۔ نتیجتاً گاڑی چلنے سے انکار کر گئی۔
اسی وقت پٹرولنگ پولیس پہنچی۔ انہوں نے رسّی دی اور گاڑی کو دوسری گاڑی کے ساتھ باندھ کر قریبی پٹرول پمپ تک لے گئے۔ کلورکوٹ پہنچتے پہنچتے رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ پروگرام اپنے عروج پر تھا — ہم نے شرکت کی، تنظیمی مقاصد بیان کیے، شیلڈز تقسیم ہوئیں اور وصول بھی کیں، جبکہ کھانا صبح کے چار بجے کھایا! کیونکہ ہم لیہ سے شام چار بجے روانہ ہوئے تھے، اس لیے بھوک سے برا حال تھا۔
واپسی کے وقت جب گاڑی اسٹارٹ کی تو وہ بار بار بند ہو رہی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ٹریکر کمپنی نے گاڑی لاک کر دی تھی، کیونکہ گاڑی کو بغیر اسٹارٹ کیے دوسری گاڑی سے کھینچا جا رہا تھا۔ کمپنی نے بھکر پولیس کو اطلاع دی کہ ان کی حدود میں مشکوک سرگرمی ہو رہی ہے، جس پر پولیس نے لاری اڈہ بھکر پر ہمیں گھیر لیا۔۔۔
تحریر : محمد کامران تھند