ضلع لیہ ان خوش نصیب 24 لاکھ شہریوں کا گھر ہے جو اپنی پسماندگی غربت اور نظر انداز کیے جانے پر اکتفاکرتے ہوئے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے علم کی طاقت سے انتقام لینے کی شکل میں اپنے اپ کو منوانے کے لیے نہایت تیزی سے علمی ادبی میدان میں سرخرو ہوئے اور لاہور میں ہونے والی سرکاری تقریبات میں ضلع لیہ کا شمار تعلیمی ترقی کی بنیاد پر اس پیمانے کی نظر سے دیکھا گیا یہاں کے طالب علم خوب محنت سے اپنے ضلع کا نام روشن کر رہے ہیں یوں ہمارے ضلع کی اہم سوغات ہمارے طالب علم اور اساتذہ کرام کی محنت ضلع کے باسیوں جو زراعت تجارت محنت مزدوری کے شعبہ سے وابستہ ہیں نے اپنے بچوں کو تعلیم ایسی نعمت سے منور کر کے اپنے ضلع کا نام روشن کیا

لیہ کی دھرتی ہمیشہ سے اہلِ قلم، صوفیاء اور درویشوں کا مسکن رہی ہے۔ انہی ہستیوں میں ایک درویش صفت شخصیت، مہر نور محمد تھند، اپنے علم و فن اور بے باک کردار کے باعث تاریخ کے اوراق پر سنہری حروف میں رقم ہیں۔ وہ محض ایک استاد نہیں تھے، وہ محقق بھی تھے، نقاد بھی، اور ایسے لکھاری بھی جنہوں نے قلم کو ہمیشہ سچائی کا پرچم تھامے رکھا۔ ان کی سب سے بڑی علمی کاوش "تاریخِ لیہ” ہے۔ یہ کتاب ضلع لیہ کی تاریخ، تہذیب، ثقافت اور شخصیات کا ایسا آئینہ ہے جسے دیکھ کر ہر پڑھنے والا اپنے ماضی کو پہچان لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کتاب صرف لائبریریوں تک محدود نہیں رہی بلکہ طلبہ، محققین اور مقابلے کے امتحانات کی تیاری کرنے والوں کے لیے ایک مستند ریفرنس ثابت ہوئی۔ کتنے ہی نوجوان اسی کتاب کی مدد سے امتحانی میدانوں میں سرخرو ہوئے۔ یہ حقیقت اس بات کا اعلان ہے کہ مہر نور محمد تھند نے قلم کے ذریعے نسلوں کی رہنمائی کی۔
درویش مگر اصولوں پر ڈٹ جانے والے خواہش کے لیے انہیں کوئی بھی قیمت چکانی پڑی وہ صحافی تھے,میں نے اپنی تیس سالہ صحافتی زندگی میں ان کے ساتھ بے شمار لمحے گزارے۔ اخبار کا ڈیکلریشن لینے سے لے کر پہلی اشاعت کے افتتاح تک، ہر مرحلہ ان کی رہنمائی اور موجودگی سے جگمگاتا رہا۔ مجھے آج بھی یاد ہے، چوبارہ روڈ لیہ کے ایک پرانے چوبارے سے اخبار کی اشاعت کا آغاز ہوا تھا۔ وہ لمحہ میرے لیے ایک خواب کی تعبیر تھا اور اس خواب کے پس منظر میں مہر نور محمد تھند کی دعا اور موجودگی شامل تھی۔وہ لمحہ اج بھی میری نظروں میں ایک خوشگوار اور خوبصورت لمحہ ہے جب ایک چھوٹی سی محفل میں مٹھائی تقسیم کرتے ہوئے چہرے پر ایک اطمینان اور روشن مستقبل کی اس لیے جس کے تحت وہ اپنے خوابوں کی تکمیل کر سکتے تھے اور جس طرح کی صحافت ان دنوں چل رہی تھی اس میں تبدیلی کہ جذبے سے ہی وہ یہ اخبار لے کر ائے تھے جس کے چرچے اج تک ان کی ہر اشاعت میں ہوتے ہیں اور تنقید میں انہوں نے ہمیشہ میرٹ کو بالادست رکھا بلا خوف و خطر اور مرعوب ہوئے اپنا کام کرتے چلے گئے اس کی ایک مثال میں اپنی ملاقاتوں کے حوالے سے دے سکتا ہوں کہ ایک تقریب میں جو گورنمنٹ کالج کی سالانہ سپورٹس ایونٹ تھا اس میں ہمارے بزرگ سیاستدان ملک غلام حیدر تھند مہمان خصوصی تھے تو میزبان تقریب نے مہر نور محمد تھند اور مجھے میوزیکل چیئر کے لیے حصہ لینے کا کہا اس پر انہوں نے کہا کہ اگر اس میں ملک غلام حیدر تھند صاحب حصہ لیں گے تو پھر ہم ضرور چلتے ہیں انہوں نے یہ بات صدر مجلس ملک غلام حیدرتھند سے کی تو انہوں نے حامی بھر لی اور اس علامتی میوزیکل چیئر گیم میں حصہ لینے کے لیے جب اٹھنے لگے تو انہوں نے مجھے کہا کہ اپ بھی چلیں میں نے کہا کہ چونکہ ملک غلام حیدر تھند صاحب حصہ لے رہے ہیں اور وہ میرے چچا ہیں میں حصہ نہیں لینا چاہتا تو اس پر ان کا کہنا تھا کہ اج اصلی گیم ہوگی جو رولز میں انہیں کہہ کر رہا ہوں گا وہی چلیں گے اور وہی ہوا کہ وہ پہلے سٹیج پر گئے انہوں نے کہا کہ میوزک مرضی سے مت بند کرنا جو وقت گھڑی پہ سیٹ کیا گیا ہے اسی طرح بند کرنا تو سب مہمان حیران رہ گئے خود صدر مجلس ملک غلام حیدر تھند صاحب بھی اور انہوں نے گیم سے پہلے ہی کہا کہ اپ مہر نور محمد تھند کو پہلے نمبر کا سرٹیفکیٹ دے دیں تو اس پر مہر نور محمد نے کہا کہ یہ گیم ہے عام طور پر یہ علامتی کی جاتی ہے لیکن اج میں چاہتا ہوں کہ اس کو اصل طور پر کروا کے دیکھتے ہیں یوں پوری محفل حیران ہوئی اور ہم نے حصہ لینا شروع کر دیا چونکہ صدر مجلس پہلے کہہ چکے تھے اس بنا پر وہ اپنی پوری اب و تاب سے حصہ نہ لے پائے اور جیسا کہ ایک روٹین ورک ہے کہ صدر مجلس کو کامیاب کرا دیا جاتا ہے وہ اس انداز سے بھی ذرا دھیمے چل رہے تھے یوں اس کا اختتام میرے اور مہر نور محمد تھند کے درمیان ا کر رک گیا اب میرے لیے یہ امتحان تھا کہ کیا میں اہستہ چلوں یا وہ اہستہ چلیں تو انہوں نے مجھے چونکہ قریب قریب چل رہے تھے ایک ہی کرسی باقی تھی تو وہ وقت مجھے تا حیات نہیں بھولے گا جب انہوں نے مجھے کہا کہ اپ سیٹ پر بیٹھ جائیں اور یوں اول ،دوم ہمارے درمیان فیصلہ ہوا ان کی اس سپورٹس تقریب کے چرچے کئی دن اس میوزیکل چیئر ایونٹ پر چلتے رہے کافی عرصے بعد میں ان کی بیمار پرسی کے لیے گھر گیا تو وہ مجھے ہمیشہ اپنے پاس کمرے میں بلاتے تھے اور وہاں میں نے یہ سوال کیا کہ اپ نے اس دن ایسا کیوں کیا تو انہوں نے کہا کہ میں اس روش کو توڑنا چاہتا تھا کہ اگر سب نے علامتی طور پر ہی کرسیوں کے ارد گرد گھومنا ہے تو پھر جانے کا کوئی فائدہ نہیں اگر کوئی فائدہ ہے تو پھر مقابلہ کیا جائے جو نظر ائے میں نے اپ کو اس لیے چنا کہ جس طرح اپ کے وہ بزرگ ہیں چچا ہیں میرے لیے بھی وہ اسی طرح قابل احترام ہے میرے عزیز ہیں میرے بڑے ہیں میرے رشتہ دار ہیں یہ فیصلہ ہمارے درمیان نہ رہے اس لیے وہ موقع میں نے اپ کو دیا اور ہو سکتا ہے کہ اگر ہم اور وقت لے جاتے تو شاید اپ جیت بھی جاتے اسی طرح ایک اور واقعہ جو میں سمجھتا ہوں کہ میری سرکاری امور کی انجام دہی میں جہاں میری عزت بڑھانے کا باعث بنا وہاں میں ان کے لیے بھی دعا گو ہوں کہ اللہ پاک انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے کمشنر ڈیرہ غازی خان لیہ ایک اجلاس میں صدارت کر رہے تھے کہ ایک نقطے پر جس میں ایم سی ہائی سکول کی اراضی کا کیس ان دنوں نمایاں انداز میں حکومت کے اگے انجم صحرائی صاحب کی کاوشوں کی بدولت چل رہا تھا اور اس کے لیے کی ڈپٹی کمشنر اور ان کی ٹیم کو اس وقت کوئی ریفرنس نہیں مل رہا تھا کہ وہ کوئی جواب دے پاتے تو میں نے کمشنر صاحب کو کہا کہ تاریخ لیہ میں اس اراضی کی بابت بہت کچھ درج ہے جس سے اگر اپ استفادہ کریں تو کوئی سمت مقرر کی جا سکتی ہے کمشنر نے مجھے کہا کہ اپ وہ کتاب کہاں ہے لے ائیں میرے لیے اس وقت یہ امتحان کا باعث بن گئی کہ وہ نسخہ میرے پاس نہیں تھا میں فوری طور پر گھر گیا یہ اتفاق ہے کہ وہ موجود تھے میں نے پوری روداد سنائی تو انہوں نے اپنے بچوں سے کہہ کر ایک ایسا نسخہ جو ان کے لیے ہی اس وقت ایک ہی بچا ہوا تھا شاید وہ لا کے دیا یوں میری بات پوری ہوئی کمشنر صاحب وہ ساتھ لے کر ڈیرہ غازی خان چلے گئے غرض ان سے قرابتداری کے اور بھی ایسے واقعات ہیں جو مجھ سے جڑے ہوئے ہیں کہ وہ نہایت غصہ بھی کرتے اور میں انہیں کہتا کہ اس خبر کو رہنے دیں تو میرے لیے یہ بات بھی بڑی اعزاز کی ہے کہ کبھی رد نہیں کیا انہوں نے اور میری عزت رکھی یوں وہ سخت گیر بھی ضرور تھے مجھے مستاجری پر لیے گئے رقبہ پر اکثر لے جاتے تھے انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ یہ میرا اپنا ہے ہم وہاں گھنٹوں بیٹھے رہتے میرے پاس موٹرسائیکل نہیں تھا ان کے پاس گاڑی ہوتی تھی ہم اکٹھے چلے جاتے تھے یوں ایک بار میں نے انہیں ہاتھ میں سلنڈر پکڑے اس میں ایل پی جی بھروانے لے جاتے ہوئے دیکھا تو فوری طور پر میں نے وہ سلنڈر ان کے ہاتھ سے لے لیا تو مہر نور محمد کہنے لگے ریاض میاں میں خود اپنی مرضی سے یہ چھوٹا سا سلنڈر ہے اٹھا کر لے ایا ہوں یہ میرے مطالعہ کے وقت سردی سے بچنے کا ذریعہ ہے تو اس میں نزدیکی دکان سے گیس بھروا لیتے ہیں بھلے سلنڈر اپ پکڑ لیں لیکن ہم اکٹھے چلتے ہیں یوں کچھ باتیں بھی کر لیں گے ان دنوں وہ اپنی بیماری سے بھی لڑ رہے تھے ایسے بے شمار محبتوں بھرے واقعات جو میری ان کی زندگی سے جڑے ہوئے ہیں بے شمار ہیں میرے لکھے گئے سرکاری خبروں کے ہینڈ اؤٹ اقتباسات پر بھی وہ میری رہنمائی بھی کرتے اور مجھ سے لکھے گئے ان خبروں پر خوشی بھی محسوس کرتے کیا اپ کا ہاتھ بہتر ہو چکا ہے میرے دفتر ان کے گھر کے قریب تھا وہ میرے پاس اکثر ا جایا کرتے تھے خبروں کے تبادلہ خیال کے ساتھ ساتھ ادبی اور شعراء کرام کے بارے میں بھی گفتگو سے مصطفی ہوتا رہا ہوں میں اپنے کام کے جنون اور محنت کرنے کے جذبے کی بنا پر بعض اوقات اتوار کے روز بھی میں دفتر اتا تو وہ دوپہر کو کھانا بھی لاتے اور اخبارات کا مطالعہ بھی کرتے تھے ان کے بچوں سے بھی میری یاد اللہ ہے ان میں مہر محمد انورتھند میں ہمیشہ میں نے ان کی جھلک پائی ہے مجھے بھی وہ اپنے باپ کے دوست کی نظر سے دیکھتے اور عزت سے ملتے ہیں میری دعا ہے کہ اللہ پاک انہیں مزید ترقی اور کامیابی عطا فرمائے

وہ درویش صفت تھے لیکن درویش ہونے کے ساتھ ساتھ اصولوں پر ڈٹے رہنے والے انسان بھی تھے۔ صحافت میں کبھی سمجھوتہ نہ کیا، چاہے حالات کتنے ہی سخت کیوں نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ضلع لیہ کی صحافتی تاریخ میں سب سے زیادہ بے باک اور تنقید کرنے والے صحافی کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ ان کے قلم کی کاٹ اور دلیل کی گہرائی نے ہمیشہ سچائی کو آشکار کیا۔ بطور استاد، مہر نور محمد تھند نے ہزاروں شاگردوں کی زندگیاں سنواریں۔ ان کے شاگرد آج بھی محبت اور عقیدت سے ان کا نام لیتے ہیں اور انہیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ وہ صرف کتابی علم بانٹنے والے استاد نہیں تھے بلکہ عملی زندگی میں کردار سازی کے بھی علمبردار تھے۔ ان کی صحبت میں بیٹھنے والا ہر شخص یہ سبق لے کر اٹھتا تھا کہ سچائی پر ڈٹے رہنا ہی اصل کامیابی ہے۔
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مہر نور محمد تھند نے اپنی تحقیقی، ادبی اور صحافتی خدمات کے ذریعے لیہ کو ایک نئی پہچان دی۔ ان کی ذات ایک ادارہ تھی، اور آج بھی ان کے لکھے ہوئے الفاظ، ان کی جرات مندانہ تنقید اور ان کے شاگردوں کی یادیں انہیں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ مہر نور محمد تھند ایک شخصیت نہیں بلکہ ایک عہد کا نام ہے۔ وہ عہد جس میں علم، تحقیق، سچائی اور جرات ایک ہی وجود میں سمٹ آئے تھے۔ ان کی زندگی اس بات کی دلیل ہے کہ درویشی اور علم دوستی الگ راستے نہیں بلکہ ایک ہی منزل کی طرف جانے والے سفر ہیں۔ ان کا نام لیہ کی تاریخ اور صحافت میں ہمیشہ روشن ستارے کی مانند جگمگاتا رہے گا۔