انسانی معاشروں میں معلومات اور پیغام رسانی کا سفر صدیوں کا ہے — ایک طویل مگر شگفتہ ارتقائی سفر۔ جہاں کبھی ایک قاصد گھوڑے کی پیٹھ پر میلوں راستہ طے کرتا ہوا خبر پہنچاتا، وہاں آج ہم ایک چھوٹے سے اسمارٹ فون کی اسکرین پر لمحوں میں پوری دنیا کی نبض محسوس کرتے ہیں۔ اس تبدیلی کو سمجھنے کے لیے تاریخ کے آئینے میں جھانکنا لازم ہے۔
قدیم زمانے میں جب کوئی پیغام دور دراز تک پہنچانا مقصود ہوتا تو خط و کتابت کا رواج کم و بیش گھروں تک محدود تھا۔ لوگ اپنے عزیزوں کو خطوط لکھتے، خطوت یعنی ہاتھ سے لکھے گئے پیغامات کو روایتی قافلوں یا قاصدوں کے ذریعے منزل تک پہنچایا جاتا۔ یہی خطوت کا دور تھا جس میں ہر خط ایک ذاتی اور عاطفہ بھرا ذریعہ ہوتا تھا — ہر حرف میں صبر، ہر سطور میں انتظار کا رنگ ہوتا تھا۔ بادشاہوں اور حکمرانوں نے بعد ازاں منظم ڈاکی نظام متعارف کرایا؛ یوں مقامی اور بین الاقوامی سطح پر پیغامات کے مستحکم بہاؤ کی بنیاد پڑی۔ ڈاک کے اس نظام نے لوگوں کے بیچ نئے رشتے بنائے، تجارت کو سہولت فراہم کی اور حکومتی امور میں شفافیت لانے میں کردار ادا کیا۔

اِس کے بعد ریڈیو اور ٹی وی نے خبروں اور معلومات کے حصول کا منظر نامہ بدل کر رکھ دیا۔ ریڈیو کی آواز نے گاؤں، دیہات اور شہر کے بیچ ایک پل قائم کیا، اور ٹی وی نے بصری صحافت کے ذریعے ٹھوس حقائق کو ہر گھر کی دہلیز تک پہنچایا۔ ٹیلیفون نے لوگوں کو قریب کیا، اور ٹی وی خبریں لمحہ بہ لمحہ دنیا کے ہنگاموں سے آگاہ رکھنے لگا۔ اخبارات اور نشر کردہ خبریں اب بھی باوقار ذرائع رہے، مگر ان کی رفتار اور رسائی محدود تھی جب تک کہ ڈیجیٹل انقلاب نے دروازہ نہیں کھٹکھٹایا۔
اگر ہم اپنے ضلع لیہ یا ایسے دیہی علاقوں کی جانب نظر ڈالیں تو تبدیلیوں کے یہ مناظر اور بھی واضح دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک گاؤں کی بیٹھکوں میں ریڈیو سننا ایک عام مشغلہ تھا — لوگ شام کو بیٹھک پر جمع ہوتے، ریڈیو کی مدھم آواز میں قومی و بین الاقوامی خبروں کا انتظار کرتے اور تبادلۂ خیال ہوتا۔ پھر ٹیلی ویژن نے ریڈیو کی جگہ لے لی؛ بیٹھکوں میں اب خبریں ٹی وی پر دکھائی جانے لگیں اور لوگ شام کے نشریاتی اوقات کے مطابق ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر خبرنامہ دیکھتے۔ مقامی اخبارات بھی ایک نمایاں حیثیت رکھتے تھے — ہوٹل، ڈیرہ، چوپال اور دکانوں پر صبح سویرے اخبار پڑھنا روزمرہ روٹین ہوا کرتا تھا، جہاں قصے، مقامی معاملات اور قومی خبروں پر گفتگو گرم رہتی تھی۔
لیکن آج کا منظر پھر بدل چکا ہے۔ جو خبریں پہلے صرف قومی یا بین الاقوامی چینلز پر چلتی تھیں، وہی اب سوشل میڈیا کے ذریعے ویڈیوز اور کلپس کی صورت میں فوراً پھیل جاتی ہیں۔ لیہ و اس جیسے اضلاع کے مقامی حلقے اب خبریں فیس بک، واٹس ایپ گروپس اور دیگر پلیٹ فارمز پر شیئر کرتے ہیں — کسی واقعے کی اطلاع، سرکاری نوٹیفکیشن، یا محض ایک ویڈیو لمحوں میں ہزاروں ہاتھوں تک پہنچ جاتی ہے۔ واٹس ایپ گروپس میں بھیڑ بھاڑ، کنبوں اور محلے کی اطلاعات گرما گرم شیئر کی جاتی ہیں، اور لوگ ایک دوسرے کو فوراً آگاہ رکھتے ہیں۔ یہ رجحان اس لیے بھی مضبوط ہے کیونکہ اب ہر قِسم کے افراد کے ہاتھ میں سمارٹ فون موجود ہے اور وہ اسی میں اپنی دنیا بسا لیتے ہیں؛ یعنی خبر صرف نشریاتی اداروں کی ملکیت نہیں رہی، بلکہ ہر فرد اپنی خبر بنانے اور پھیلانے کے قابل ہو گیا ہے۔

اس تبدیلی کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ دور حاضر کا فرد — خاص طور پر نوجوان اورشہری — معلومات فوراً حاصل کرنے کے عادی ہیں۔ کسی بھی واقعے کی اصل ویڈیو یا تصویر فوراً دستیاب ہو تو اعتماد اور رسائی میں اضافہ ہوتا ہے؛ اسی لیے لوگ روایتی ذرائع کے بجائے اپنے موبائل پر نوٹیفکیشن، ویڈیوز اور شیئرڈ پوسٹس دیکھنا ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ، سوشل میڈیا کی انٹرایکٹو فطرت نے لوگوں کو موقع دیا ہے کہ وہ خبروں پر تبصرہ کریں، حقائق شیئر کریں، اور اپنی رائے کا فوراً اظہار کریں — ایک ایسا عمل جو کبھی اخبارات یا ٹی وی کے ذریعے اس شدت کے ساتھ ممکن نہیں تھا۔
تاہم اس رفتار اور آسانی کے ساتھ خطرات بھی وابستہ ہیں۔ معلومات کا غیر مصدقہ پھیلاؤ، سنسنی خیزی، اور فیک نیوز کے وہ نشانات ہیں جو سماجی ہم آہنگی کو متاثر کر سکتے ہیں۔ اسی لیے اشد ضرورت ہے کہ ہم بطور صارف احتیاط اختیار کریں: خبر کی ماخذ کی جانچ کریں، ویڈیو یا تصویر کی صداقت پر غور کریں۔
آج کے دور میں سوشل میڈیا نے زندگی کے ہر رخ میں انقلاب برپا کر دیا ہے—۔ ڈیجیٹل دنیا کی رفتار کو تسلیم کرتے ہوئے ہی ہم معلومات کے اس سمندر میں خوش اسلوبی اور ٹھہراؤ برقرار رکھ سکیں گے۔
آخر میں یہی کہنا مناسب ہوگا کہ سوشل میڈیا سے دوری واقعی ناممکن ہو چکی ہے، مگر اس کے ساتھ آنے والی طاقت اور ذمہ داری دونوں کو سمجھنا اور سنبھالنا بھی ہماری زمہ داری ہے۔ اطلاعات کے اِس نئے عہد میں ہوشیار صارف بنیں — دریافت کریں، تصدیق کریں،— تبھی ہم ایک باخبر، ذمہ دار اور مربوط معاشرہ تشکیل دے سکیں گے۔
