کورونا وبا کے دوران عوامی خدمت اور خبروں کی بروقت اشاعت نے ہمیں نہ صرف صحافتی اعتبار سے نکھارا بلکہ سماجی سطح پر بھی پہچان دی۔ روزنامہ سنگِ بے آب میں شائع ہونے والی کورونا آگاہی مہم کے تحت مختلف محکموں، افسران اور سیاسی شخصیات کے بیانات شائع کیے گئے — جنہیں نہ صرف ضلعی بلکہ ریجنل سطح پر بھی سراہا گیا۔
ان دنوں میں نے محسوس کیا کہ صرف خبر دینا کافی نہیں — صحافت کا اصل مقصد معاشرتی بہتری، آگاہی، اور عوامی خدمت ہے۔ یہی سوچ لے کر ہم نے تھوڑا سا دائرہ وسیع کیا اور مقامی مسائل، ترقیاتی منصوبوں، سرکاری غفلت اور عوامی شکایات پر بھی رپورٹنگ شروع کی۔
رپورٹنگ کا میدان اتنا آسان نہیں تھا جتنا لوگ سمجھتے ہیں۔ ایک خبر پر کوئی خوش ہوتا تو دوسرا ناراض۔ ایک سچ بولنے پر اگلے دن وضاحتی فون، دباؤ، یا کبھی "نظر انداز” کیے جانے کی دھمکیاں ملتی رہیں۔ ایک بار تحصیل دفتر کی خبر شائع کی کہ ایک اہلکار عوام سے بدتمیزی کرتا ہے، تو دوسرے دن اس افسر نے براہ راست فون کر کے ناراضی کا اظہار کیا۔ پھر کسی سیاسی شخصیت نے سفارش ڈلوائی کہ خبر واپس لی جائے یا نرمی برتی جائے۔ ہم نے معذرت سے انکار کیا — کیونکہ صحافت نرمی سے نہیں، سچائی سے زندہ رہتی ہے۔
اسی دوران مختلف صحافتی تنظیموں کی سرگرمیوں میں بھی حصہ لینا شروع کیا۔ کچھ دوستوں نے فیڈریشن آف پرائیویٹ اسکولز کے تعاون سے دوبارہ آگاہی سیشنز کا آغاز کروایا — جن میں صحافت، سوشل میڈیا، اور قانونی دائرہ کار پر سیشنز شامل تھے۔ ہم نے ریسکیو 1122، پولیس، محکمہ صحت، تعلیم، اور انتظامیہ سے مل کر ورکشاپس کروائیں۔ نوجوان صحافیوں کو صحافتی آداب، ضابطہ اخلاق، اور بنیادی معلومات دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان دنوں میرے ساتھ کام کرنے والوں میں غلام دستگیر شاہ، چوہدری شفیق، سید عابد فاروقی، مہر حسنین شفیق، سیفل ڈھڈی، جام اشرف اور دیگر کئی ساتھی شامل تھے۔
اسی عرصے میں سوشل میڈیا اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ ہر ہاتھ میں موبائل، ہر بندہ "جرنلسٹ”، اور ہر بات "خبر”۔ فیس بک کے صحافتی پیجز پر پوسٹ کرتے ہوئے ایک نئی مشکل نے جنم لیا: خبر کی صداقت۔ ہم نے بارہا دیکھا کہ بغیر تحقیق پوسٹ کی گئی ایک جھوٹی خبر کسی کی ساکھ، عزت اور روزگار پر سوالیہ نشان بن گئی۔ اسی وجہ سے ہم نے طے کیا کہ کوئی بھی خبر، جب تک تصدیق نہ ہو، نہ دی جائے۔ اسی اصول کو بنیاد بنا کر کام کرنے کی وجہ سے کچھ دوست ہم سے دور بھی ہوئے، مگر یہ اصول ہی ہماری پہچان بنا۔
فیصل شامی کی رہنمائی میں جب روزنامہ یلغار لاہور کے ساتھ بطور نمائندہ کام شروع کیا تو یہ ذمہ داری نسبتاً سنجیدہ اور اہم تھی۔ وہاں صرف خبر نہیں بلکہ "خبر کا وزن” بھی دیکھا جاتا تھا۔ ہم نے مختلف شعبوں کی رپورٹس، انٹرویوز، عوامی شکایات پر خصوصی رپورٹس، اور تصویری کہانیوں پر بھی کام کیا۔ خبر کی تیاری سے لے کر صفحہ ترتیب دینے تک کی مہارت حاصل کی۔
ایک بار لیہ پولیس نے انسداد منشیات مہم کے دوران ایک اہم کارروائی کی۔ ہم نے فوری رپورٹنگ کی، تفصیلات لیں اور خبر چینلز و اخبارات کو بھجوائی۔ اگلے دن صبح ڈی پی او آفس سے فون آیا: "بہترین رپورٹنگ کی، عوام کو درست پیغام گیا۔” اسی طرح پریس کانفرنس میں ایک موقع پر ایک افسر نے ہمارے سوالات کو نظر انداز کیا، بعد ازاں ان کے دفتر سے فون آیا اور کہا: "آپ کے سوالات نے ہمیں سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔”
ایسے لمحات میں احساس ہوا کہ قلم کی طاقت واقعی موجود ہے — بس اسے صحیح وقت اور صحیح جگہ استعمال کرنا آنا چاہیے۔
ان برسوں میں جو کچھ سیکھا، اس کا خلاصہ یہی ہے کہ صحافت صرف شہرت یا تصویر چھپوانے کا نام نہیں۔ یہ قربانی، محنت، اصول، سچائی اور صبر کا نام ہے۔ سچ لکھنے کی قیمت کبھی فوری نہیں ملتی — لیکن اس کا اثر دیرپا ہوتا ہے۔
تحریر :محمد کامران تھند