لیہ میں صحافت کے ساتھ ساتھ جب صحافتی سیاست میں قدم رکھا تو ابتدا میں جو دوست خبر کے وقت میرے ساتھ ساتھ ہوتے، وہی اندر ہی اندر ٹانگیں کھینچنے لگے۔ اس کا علم اس وقت ہوا جب نقصان ہو چکا تھا، اور اعتماد، جو برسوں میں قائم ہوا تھا، لمحوں میں بکھر گیا۔
واقعہ یوں تھا کہ ہمارے ایک صحافی دوست کا پولیس چیک پوسٹ 90 موڑ پر ایک اہلکار سے تلخ کلامی ہوگئی۔ اہلکار نے کارروائی کی دھمکی دی تو نوجوان صحافی دوستوں نے اظہارِ یکجہتی کے لیے اکٹھے ہو کر ایک نیا گروپ بنانے کا فیصلہ کیا۔ یوں "لیہ الیکٹرانک میڈیا ایسوسی ایشن” کے نام سے ایک ینگ جرنلسٹ گروپ وجود میں آیا۔ ابتدا میں سب کچھ درست اور صاف نیت سے شروع ہوا۔ مضافات سے نئے دوستوں کو شامل کیا گیا، ایک جوش اور جذبے سے تنظیم سازی ہوئی۔
پھر کچھ دوستوں نے مشورہ دیا کہ تنظیم کو وسعت دینی ہے تو سینئر صحافیوں کو بھی شامل کیا جائے۔ ہم نے یہ بات قبول کی، کیونکہ مقصد بہتر اور مضبوط تنظیم تھا۔ مگر وہی لمحہ تنظیم کے بکھرنے کا آغاز تھا۔ جن سینئرز کو ہم نے عزت دے کر ساتھ شامل کیا، انہوں نے پوری تنظیم ہی ہائی جیک کرلی۔
تنظیم میں اختلافات بڑھنے لگے۔ ہم نے صلح صفائی کے لیے اپنی طرف سے ایک قریبی دوست کو مصالحتی نمائندہ بنا کر بھیجا، مگر یہ حیرت انگیز دھچکا تب لگا جب وہی نمائندہ کمیٹی میں بیٹھ کر خود امیدوار بن گیا۔ جسے ہم نے ثالث بنایا، وہی مدِ مقابل کھڑا تھا۔ ہمیں مجبوراً اسے جنرل سیکرٹری کی نشست کے لیے نامزد کرنا پڑا۔ صدارت ایک سینئر صحافی کو دی گئی، جبکہ مجھے چیئرمین مجلس عاملہ کا عہدہ دیا گیا۔
تنظیم میں بغیر اطلاع کے ممبران شامل کیے جانے لگے۔ مجھے، بطور چیئرمین، نہ مشورہ دیا جاتا نہ اطلاع۔ ساتھ ہی ساتھ وہی دوست — اور میں کہنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا — منافق، اندر ہی اندر کھچڑی پکاتے رہے۔ مقصد صرف ایک تھا: ہمیں الگ کرنا۔
چوک اعظم میں ایک موقع پر ایک معروف قبضہ گروپ کے خلاف کارروائی کے دوران پولیس کا رویہ ایک صحافی سے ناروا تھا۔ صدرِ تنظیم نے اس پر خبریں چلوانے کا کہا۔ ہمیں جو خبریں موصول ہوئیں، وہ جھوٹ پر مبنی تھیں — من گھڑت تفصیلات، اور جان بوجھ کر ہمیں استعمال کیا گیا۔ جب ہمیں معلوم ہوا کہ یہ خبریں فیک تھیں اور ہمیں جان بوجھ کر ان کا ذریعہ بنایا گیا تو ہم نے اجلاس میں بات رکھی۔ مگر اس پر صدر اور اس کے حامی بھڑک اٹھے۔ بجائے وضاحت کے، ہمارے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کر دی گئی۔
اور وہی دوست، جو آخری لمحوں تک میرے پاس بیٹھے چائے پی رہے تھے، موٹر سائیکل سے کپڑا اتارنے کا بہانہ کرکے نکلے، چند لمحوں بعد دوسرے گروپ میں کھڑے نظر آئے۔
یوں ہمیں اس تنظیم سے، جس کی بنیاد ہم نے رکھی تھی، الگ کر دیا گیا۔ اس موقع پر مہر زاہد واندر، محمد آصف نزیر، ملک مقبول الہی، امین مومن، اور اجمل خان دستی نے کھل کر ساتھ دیا، حوصلہ دیا۔
اسی دوران ہم نے سید عثمان شاہ کی قیادت میں "یونائیٹڈ گروپ” میں شمولیت اختیار کی۔ اور فیصلہ کیا کہ اب ہم ڈسٹرکٹ پریس کلب لیہ کی سیاست میں بھرپور طریقے سے پنجہ آزمائی کریں گے — اپنے حق کے لیے، سچ کے لیے، اور ان تمام نوجوانوں کے لیے جو صحافت میں نیک نیتی سے کام کرنا چاہتے ہیں۔
تحریر: مہر کامران تھند