اس دوران عبدالرحمان فریدی ڈسٹرکٹ پریس کلب لیہ کے صدر منتخب ہوئے جبکہ جنرل سیکرٹری کی ذمہ داری یامین مغل کے سپرد ہوئی۔ ان کا یہ دور ایک تسلسل کے ساتھ جاری رہا اور دوسرے سیشن میں بھی وہی قیادت برقرار رہی۔ لیکن اسی دوران صحافتی حلقوں میں ہلچل ایک بار پھر تیزی سے بڑھنے لگی۔ محسن عدیل چوہدری گروپ نے ایک بار پھر کمر کس لی اور نئے انتخابات کے اعلان کے ساتھ سامنے آگئے۔ یہاں سے لیہ کی صحافت میں ایک نیا باب کھلنے لگا — ایسا باب جس میں اتحاد سے زیادہ تقسیم، اور نیت سے زیادہ نعرے تھے۔
انتخابات کے اس اعلان نے موجودہ گروپ یعنی عبدالرحمان فریدی اور رانا خالد شوق کی ٹیم کو دفاعی پوزیشن پر لاکھڑا کیا۔ جلد ہی منظرنامہ ایسا بنا کہ ایک ہی پریس کلب کی دو متوازی قیادتیں سامنے آگئیں۔
ایک طرف محسن عدیل اور ارشاد احمد رونگھا کی قیادت میں گروپ میدان میں تھا، تو دوسری طرف عبدالرحمان فریدی اور رانا خالد شوق کی ٹیم اپنی پوزیشن پر قائم تھی۔
دونوں فریقین نے خود کو "اصل” پریس کلب کے نمائندے ثابت کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ ایک ہی عمارت میں دونوں گروپ روز بیٹھتے، الگ الگ اجلاس کرتے، اور الگ الگ اپنے حامیوں کو مبارکبادیں دیتے۔
یہ صورتِ حال جہاں عوام کے لیے باعث حیرت تھی، وہیں انتظامیہ کے لیے بھی ایک دردِ سر بن چکی تھی۔ معاملات بڑھتے گئے۔ کبھی لفظی جھڑپیں، کبھی تند جملوں کا تبادلہ، اور کبھی میڈیا پر ایک دوسرے کے خلاف خبریں — سب کچھ تماشہ بن گیا۔
ایسا لگتا تھا کہ صحافت نہیں، کوئی سیاسی اکھاڑہ ہے، جہاں صحافی کم اور سیاستدان زیادہ موجود ہیں۔
آخرکار ضلعی انتظامیہ نے معاملے پر مداخلت کا فیصلہ کیا۔ مقامی پولیس کے ذریعے پریس کلب کی عمارت کو تالا لگا دیا گیا۔ اس تالا بندی کا مقصد وقتی طور پر ماحول کو ٹھنڈا کرنا تھا، لیکن نتیجہ اس کے برعکس نکلا۔
ڈسٹرکٹ پریس کلب، جو کبھی لیہ کے صحافیوں کا مرکزِ یکجہتی اور آوازِ حق ہوتا تھا، اب کھنڈرات کا منظر پیش کرنے لگا۔ نہ وہاں اجلاس ہوتے، نہ تربیتی سیشن، نہ صحافتی سرگرمیاں۔ بس ایک تالا تھا، بند دروازے، اور ان دروازوں پر چسپاں نوٹس، جو صحافیوں کے اختلافات کی گواہی دے رہے تھے۔
یہ تالا بندی دو سال تک جاری رہی۔ دو سال جن میں نئی نسل کے صحافی بے سہارے پھرتے رہے، جنہیں کوئی تربیت نہ ملی، نہ رہنمائی، نہ نمائندگی۔
اور اس تمام عرصے میں اصل نقصان صحافت کو ہوا۔ سچ کو، قلم کو، اور اس آواز کو جو عوام کے لیے تھی، اب خود اپنے ہی مسائل میں الجھ چکی تھی۔
یہ ایک ایسا دور تھا جس نے ہمیں یہ سبق دیا کہ اگر صحافی اپنے معاملات میں اتحاد، دیانت اور شفافیت نہ رکھیں تو پھر وہ کسی بھی سچ کے علمبردار نہیں رہ سکتے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جو ادارہ اندر سے ٹوٹ جائے، وہ باہر سے کتنا ہی مضبوط کیوں نہ لگے، ایک دن زمیں بوس ہو ہی جاتا ہے۔
(جاری ہے…)
تحریر :محمد کامران تھند