ڈسٹرکٹ پریس کلب لیہ پر دو سال سے جاری تالا بندی کے بعد، صحافت کے سنجیدہ حلقوں میں ایک بار پھر تنظیم سازی کی بات ہونے لگی۔ بالآخر، محسن عدیل چوہدری اور عبدالرحمن فریدی نے اتفاقِ رائے سے ایک پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی، جس میں انجم صحرائی، قاضی امیر عالم، ریاض راجو، مرزا یعقوب اور تنویر خان شامل تھے۔ اس کمیٹی کا مقصد شفاف ممبرسازی اور ووٹر لسٹ کی تیاری تھا۔ لیکن، افسوس کہ کمیٹی کی غیر جانبداری پر سوال اٹھنا شروع ہوگئے۔
میری طرف سے دی گئی چھ ممبران کی فائلیں ردی کی ٹوکری کی نذر کر دی گئیں، جبکہ فریدی گروپ کے بارے میں کہا گیا کہ انہوں نے تو کوئی فائلز جمع ہی نہیں کرائیں۔
کچھ دن بعد اچانک ووٹر لسٹ جاری ہوئی، اور صرف چند گھنٹوں میں الیکشن کمیٹی بھی بن گئی، اور الیکشن شیڈول بھی جاری ہو گیا۔ یہی نہیں، کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا وقت بھی اسی دن شام تک مقرر کر دیا گیا۔
شام کو جب اس پیش رفت کا علم ہوا تو فوری طور پر عبدالرحمن فریدی کے پاس مقبول الٰہی، رانا خالد شوق اور سید اظہر زیدی کے ساتھ ایک میٹنگ ہوئی۔ اس میٹنگ میں رانا خالد شوق کو صدارتی امیدوار نامزد کرنے پر اتفاق ہوا۔
رانا خالد شوق نے اس موقع پر مشورہ دیا کہ تمام چار گروپس مل کر آپس میں سیٹیں بانٹ لیں اور باہمی رضامندی سے عہدے طے کرلیں، تاکہ غیر ضروری محاذ آرائی نہ ہو۔
لیکن یہ بات طے نہ ہو سکی، اور اگلے ہی دن رانا خالد شوق، محسن عدیل چوہدری کے ساتھ اتحاد کر کے سامنے آ گئے۔ یوں، محسن عدیل کے اتحاد کو مزید تقویت مل گئی اور صدر انجمن صحافیان کی نشست، جنرل سیکرٹری شپ اور متعدد عہدے پہلے ہی تقسیم ہو چکے تھے۔
رات کو میری ملک مقبول الٰہی سے ٹیلیفون پر بات ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا گروپ الیکشن نہیں لڑ رہا کیونکہ گروپ ٹوٹ چکا ہے۔ میں نے پوچھا کہ ہم کتنے لوگ بچے ہیں؟ جواب آیا: "چھ۔”
میں نے کہا: "تو پھر میں الیکشن لڑتا ہوں۔ جیت ہار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔”
اگلی صبح نو بجے ہم اکٹھے ہوئے۔ مقبول الٰہی، اظہر زیدی، مہر ارشد حفیظ سمرا، حکیم غلام جیلانی، سید عمران شاہ — ہم نے مل کر فیصلہ کیا کہ میدان میں اتریں گے۔ صبح جیسے ہی پہنچے تو معلوم ہوا کہ عبدالرحمن فریدی نے بھی اپنے گروپ سے علیحدگی اختیار کر کے احسن شہزاد باجوہ کے ساتھ مل کر محسن عدیل کے اتحاد میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ اب ان کا صدارتی امیدوار احسن باجوہ تھا۔
ہم نے بھی مکمل پینل کے ساتھ الیکشن میں اترنے کا فیصلہ کیا:
صدر پریس کلب: مقبول الٰہی
جنرل سیکرٹری: کامران تھند
فنانس سیکرٹری: نیاز جھکڑ
صدر انجمن صحافیان: قاضی ظہور الناصر
جنرل سیکرٹری انجمن: عبدالجبار گجر
نائب صدر: سید عمران شاہ
ہم جب کاغذات جمع کروانے پہنچے، تو دوسرے گروپ کے کاغذات پہلے ہی جمع ہو چکے تھے۔ ہمیں بتایا گیا کہ وقت ختم ہو چکا ہے۔
ہمارے احتجاج پر صرف ایک گھنٹے کی مہلت دی گئی۔ فارم ملے، لیکن فارم فل کرنے والا کوئی نہیں تھا — سوائے میرے۔ میں نے سب دوستوں کے فارم پر کیے، لیکن جلدی میں اپنے ہی فارم پر دستخط کرنا بھول گیا۔
حالانکہ میں خود فارم جمع کرانے گیا، 15 ہزار روپے فیس بھی جمع کرائی، رجسٹر پر دستخط بھی کیے، لیکن شام کو اطلاع دی گئی کہ میرا فارم مسترد ہو چکا ہے۔
ہم نے اپیل کی — خارج کر دی گئی۔ دوسری اپیل — وہ بھی مسترد۔
تیسری اپیل پر معاملہ کچھ آگے بڑھا، شدید احتجاج کے بعد الیکشن ایک ہفتے کے لیے ملتوی کر دیا گیا، اور میرے کاغذاتِ نامزدگی منظور ہوئے۔
یوں ہم نے صرف چھ افراد سے انتخابی مہم کا آغاز کیا۔ چار دنوں میں نو لوگ ہو گئے۔
ہم نے صرف 23 ووٹ حاصل کیے — لیکن وہ ووٹ ہمارے حوصلے سے زیادہ قیمتی تھے، کیونکہ وہ سچائی اور خودداری کی علامت تھے۔
الیکشن کے دوران عبدالرحمن فریدی نے محسن عدیل کا گروپ چھوڑ دیا، اور واپس احسن شہزاد باجوہ کے ساتھ ہمارے اتحاد میں شامل ہو گئے۔ چنانچہ ہم نے صدر انجمن صحافیان کے امیدوار قاضی ظہور الناصر کے کاغذات واپس لے لیے، اور احسن باجوہ بلا مقابلہ صدر انجمن صحافیان منتخب ہو گئے۔
الیکشن کے دن ماحول جمہوری رہا۔ دونوں گروپوں نے مہمانوں کی تواضع کی۔
ایک طرف بریانی کا اہتمام تھا، تو ہماری طرف سے کشمیری چائے سے صحافیوں کی خاطر داری کی گئی۔
ہم الیکشن ہار گئے — لیکن ہم نے شکست کو وقار سے قبول کیا۔
جیتنے والوں کو دل سے مبارکباد دی، اور ان کی حلف برداری تقریب میں شرکت کی۔
یہی نہیں، عبدالرحمن فریدی نے سٹیج پر جا کر نئے عہدیداران کو مبارکبادی کے ہار پہنائے۔
کیونکہ ہمیں معلوم تھا کہ جیت سے زیادہ اہم جمہوریت کا تسلسل ہوتا ہے، اور صحافت میں اختلافات کے باوجود اخلاق اور کردار کو باقی رکھنا اصل کامیابی ہے۔
تحریر :محمد کامران تھند