میجر جنرل (ر) عبدالعزیز طارق میرانی، ہلال امتیاز
سابق سفیر پاکستان

نور محمد تھند صحرائے تھل کا ایک پھول ہے جو خداداد صلاحیتوں، حصول علم سے عشق اور محنت شاقہ کی بدولت فن تحقیق اور فن تصنیف کے جوبن پر پہنچا اور خدائے لازوال کی عظیم صفت تخلیق کا امین بنا۔
اگر وہ جنوبی پنجاب کے پسماندہ اور دور دراز علاقے لیہ میں پیدا نہ ہوا ہوتا اور کسی بڑے شہر یا کسی مغربی ملک میں اپنی صلاحیتوں کے چراغ جلاتا تو بہت بڑے اعزازات کا مستحق ٹھہرتا۔
لیکن وہ نہ صرف لیہ میں ہی رہا بلکہ پورے ملک اور علمی و تحقیقی حلقوں میں لیہ کی پہچان بنا اور اپنی شاہکار تصنیف تاریخ لیہ کے ساتھ ملکی تاریخ میں ہمیشہ کے لئے امر ہوگیا۔
بہت سی دیگر کتابوں اور علمی کارناموں کے ساتھ ماں ان کی آخری تصنیف تھی جو اس موضوع پر ایک نمایاں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔
ان کے ان علمی کارناموں کے اعتراف میں زہرہ میموریل سروسز ٹرسٹ نے ایک پروقار، شاندار اور یادگار تقریب میں لالہ صحرا کا خطاب ان کے نام کیا جو ان کی عالی مرتبت والدہ نے وصول کیا۔
مرحوم اور اس کے خاندان سے میرا بچپن سے تعلق تھا۔ اگر بچپن میں ماں کے ساتھ چند گھرانوں میں جانے کا پروگرام بنتا تھا تو لشکری والا پہلی ترجیح ہوتی تھی۔ اس گھرانے کی شفقت اور مہمان نوازی کبھی یاداشت سے محو نہی ہو پائی۔ میرے بچپن کا وہ یادگار واقعہ جو نور محمد کی سرائیکی زبان میں لکھی گئی کہانی لوہے دے کپڑے کا مرکزی خیال بنا اور جسے اہل ذوق و ادب میں بہت پزیرائی ملی، وہ لشکری والا پر ہی پیش آیا تھا۔
مجھے ازحد خوشی اور فخر ہے کہ مجھے لیہ کے علاوہ لاہور، سیالکوٹ، حیدراباد، پشاور اور اسلام اباد میں ان کی میزبانی کا موقع ملا۔ عجب درویش منش انسان تھا کہ علم کی پیاس بجھتی نہ تھی۔ جب بھی آیا کتابوں کی تلاش میں آیا، اصحاب کتب اور اہل علم سے ملنے کی خواہش لے کر آیا۔ جب بھی آیا سارا وقت کتابیں ڈھونڈنے اور حصول علم کی جستجو میں گزار دیا۔ میرے زور دینے کے باوجود سیر و تفریح کو ہمیشہ پس پشت ڈال دیتا۔ حیرت ہے کہ دنیاوی چکا چوند اس کو بالکل متاثر نہیں کرتی تھی۔ بلکہ میرے دوست احباب جن کی ان سے ملاقات ہوپاتی تھی وہ سب اپنی ذات میں انجمن رہنے والے اس شخص کی علمی قابلیت اور سادہ طرز زندگی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتے تھے۔
میں نے اپنی پوری زندگی میں اپنے پیشے اور مقصد حیات سے اس طرح کی وابستگی اور والہانہ عشق و محبت کرتے ہوئے کسی اور کو نہیں دیکھا۔
یہ زندگی سے بھرپور شخص اپنے لواحقین اور دوست و احباب کو اتنی جلدی داغ مفارقت دے جائے گا، ہم سب کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔
ابھی تو گوش بر آواز تھی بھری محفل
تو نے کہاں پر کہانی کا اختتام کیا۔