تحریر: محمد کامران تھند
میری پیدائش کے سال، جب شعور کی آنکھ ابھی بند تھی، ہمارے خاندان کے تین افراد وہ خوش نصیب تھے جنہوں نے تعلیم کی بلند منزل، گریجویشن، کامیابی سے طے کر لی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب ہمارے علاقے میں تعلیم محض ایک خواب، اور گریجویشن ایک بڑے معرکے کے برابر سمجھا جاتا تھا۔
ابھی میں اسکول جانے کے قابل بھی نہ ہوا تھا کہ ایک بھائی سکول ٹیچر، دوسرا یونین کونسل کا سیکرٹری اور تیسرا بھائی گورنمنٹ کالج لیہ میں لیکچرر کیمسٹری کے طور پر خدمات سرانجام دے رہا تھا۔ انہی دنوں 1988 میں ہمارے خاندان کے ایک بڑے بھائی نے ایک ایسی علمی کتاب تصنیف کی جس نے صرف لیہ ہی نہیں بلکہ جنوبی پنجاب کے فکری منظرنامے پر ہمارے خاندان کو ایک علمی و روحانی شناخت عطا کی۔
اس کتاب کا نام تھا "اولیائے لیہ” — جو ایک ایسی روشنی کا آغاز تھی جس نے آنے والے برسوں میں "چاہ لشکری والا” کو علم و ادب کا روشن حوالہ بنا دیا۔
ہمارا آبائی گاؤں — چاہ لشکری والا — جو صحرائے تھل کی کچی راہوں، پگڈنڈیوں، اور ریتیلے ٹیلوں کے درمیان ایک پرسکون علمی گوشہ بن چکا تھا، وہیں سے 1991 میں ایک خواب نے جنم لیا۔
یہ خواب تھا "اخبارِ لیہ”، جو باقاعدہ رجسٹریشن کے بعد صحافتی میدان میں اترا اور بہت جلد لیہ میں ایک سنجیدہ، معتبر اور بااصول صحافتی آواز کے طور پر ابھرا۔
جب میری تعلیم کا سفر پرائمری تک پہنچا، تو ہمارے خاندان نے تاریخ نویسی میں قدم رکھتے ہوئے ایک ایسی شہرہ آفاق تصنیف پیش کی جس نے علمی حلقوں میں تہلکہ مچا دیا۔
یہ کتاب تھی "تاریخِ لیہ”، جسے مہر نور محمد تھند نے قلمبند کیا۔ اس کا پہلا ایڈیشن 1995 میں منظرِ عام پر آیا اور ہاتھوں ہاتھ فروخت ہونے لگا۔ ہر ایڈیشن نے عوام کی پذیرائی حاصل کی، اور اس کتاب کے ٹائٹل کے نیچے لوک پنجاب پبلشرز، چاہ لشکری والا کے نام سے جگمگاتا رہا۔
یہ سلسلہ رکا نہیں — بلکہ علم، تحقیق اور تاریخ نویسی کا یہ کارواں آگے بڑھتا گیا۔
2014 تک مہر نور محمد تھند — جو کہ ہمارے خاندان کے مورخ، محققِ تھل، اور فکری ستون تھے — نے سات (7) مایہ ناز کتابیں تصنیف کیں جن میں:
اولیائے لیہ
اولیائے کروڑ
اولیائے بھکر
تاریخ لیہ
تاریخ بھکر
مسلم لیگ کے سو سال
ماں
یہ وہ نایاب کتب ہیں جو آج بھی لیہ، بھکر، جھنگ، مظفرگڑھ، ڈیرہ غازی خان اور جنوبی پنجاب کے ہزاروں گھروں، لائبریریوں اور علمی اداروں کی زینت ہیں۔
ہمارے گھرانے میں مہر نور محمد تھند کی ذاتی لائبریری، محض ایک کتب خانہ نہیں بلکہ ایک تحقیقی خزانہ ہے۔
اس لائبریری میں ہزاروں علمی و تحقیقی کتب محفوظ ہیں، جن میں تاریخ، روایات، ثقافت، ادب، شاعری، اسلامیات اور دیگر موضوعات شامل ہیں۔ یہ علمی ذخیرہ آج بھی ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ "محققِ تھل” کون تھا، اور اس کے قلم کی روشنی کتنی دور تک پھیلی۔
یہی علمی ورثہ میرے خمیر کا حصہ بنا، اور یہی شعور میری فکری تربیت کی بنیاد رہا۔
میں نے اس روشنی کو مشعلِ راہ بنایا اور اپنی زندگی کا سفر شعور، علم اور صحافت کی سمت بڑھایا۔ 1999 میں اللہ تعالی کے کرم سے ہمارے خاندان نے ایک علمی درسگاہ کا آغاز کیا جس کے ہزاروں طلبہ اج ملک و قوم کی خدمت میں اپنا لوہا منوا رہے ہیں۔ 2004ءکی ٹھنڈی شاموں میں، دورانِ گریجویشن، مجھے مظفرگڑھ میں واٹر مینجمنٹ سپروائزر کی حیثیت سے سرکاری ملازمت ملی۔ پھر 2009 میں گریٹر تھل کینال، چوبارہ میں سب انجینئر کی حیثیت سے تعیناتی ہوئی اور 2013 تک اس منصوبے سے وابستہ رہا۔ 2012 اور 2013 میں ضلعی حکومت کے احکامات پر تحصیل میونسپل لیہ میں اضافی ڈیوٹی سرانجام بطور سب انجنئیر دیں۔ پراجیکٹ کی تکمیل سے اختتام نوکری ہوا ۔
لیکن میرا دل ہمیشہ قلم، سچ اور خبر سے جڑا رہا۔
بالآخر 8 اگست 2015 کو میں نے باقاعدہ طور پر صحافت کے شعبے میں قدم رکھا۔
سب سے پہلے رائل نیوز چینل سے بطور بیورو چیف لیہ وابستگی ہوئی۔
کچھ عرصہ بعد میں نے روزنامہ انصاف لاہور کو جوائن کیا اور ساتھ ہی اخبارِ لیہ میں بطور چیف ایڈیٹر اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں — اور الحمدللہ، یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
اس کے بعد ٹی وی ٹوڈے میں بھی بطور بیورو چیف لیہ اپنی صحافتی خدمات انجام دیں۔
اس دوران میں نے کئی باصلاحیت نوجوانوں کو صحافت کے میدان میں متعارف کرایا، انہیں پلیٹ فارمز مہیا کیے اور رہنمائی فراہم کی۔
میں نے ڈسٹرکٹ پریس کلب لیہ کے انتخابات میں بطور جنرل سیکرٹری حصہ لیا، اور صحافتی برادری کے ساتھ مضبوط تعلق قائم کیا۔
اور آج، 8 اگست 2025 کو — اس مکمل دس سالہ صحافتی سفر کے بعد —
میں نیشنل ٹیلیویژن نیٹ ورک (NTN News) میں بطور ڈسٹرکٹ رپورٹر اپنی صحافتی ذمہ داریاں نبھا رہا ہوں۔
ساتھ ہی، "لیہ میڈیا ہاؤس” کے نام سے ایک علمی، ادبی اور صحافتی پلیٹ فارم قائم کر چکا ہوں، جس کا مقصد نئے لکھاریوں، صحافیوں، محققین، اور فنکاروں کو سامنے لانا ہے۔
صحافت سے وابستگی کے دوران متعدد معتبر صحافتی تنظیموں اور اداروں کے زیر اہتمام اہم ترین موضوعات پر مبنی تربیتی پروگراموں میں شرکت کا موقع ملا، جن کے لیے ملتان، لاہور، اسلام آباد اور کراچی جیسے بڑے شہروں کا سفر بھی کیا۔ ان پروگراموں کے دوران پاکستان کے نامور صحافیوں، ممتاز قلم کاروں اور ادیبوں سے براہِ راست سیکھنے کا شرف حاصل ہوا۔ ان تربیتی نشستوں کے سرٹیفکیٹس اور حاصل کردہ اعزازات آج بھی میرے لیے باعثِ فخر اور سرمایۂ حیات ہیں
میری صحافت، میری پہچان ہے۔ یہ محض ایک پیشہ نہیں بلکہ ایک مقدس فریضہ ہے —
سچ بولنے، سچ دکھانے اور حق کے ساتھ کھڑے ہونے کا۔
میں نے لیہ جیسے شہر میں طاقتور مافیاز کا ہمیشہ جرأت و استقامت سے سامنا کیا ہے، اور آئندہ بھی اسی عزم، ہمت اور دیانت کے ساتھ اپنی صحافتی خدمات انجام دیتا رہوں گا۔۔۔۔۔