عالم شعور کے فرعون !
تحریر مہر کامران تھند
کہتے ہیں شہر مصر کا بادشاہ فرعون تھا اس نے اپنی سلطنت میں پیدا ہونے والا ہر بچہ قتل کردینے کا حکم دے دیا اور اسکی ریاست میں پیدا ہونے والا ہر بچہ کو پیدائش کے بعد قتل کردیا جاتا اور مائیں اپنی کوکھ ختم کردیتیں دوسری روایت میں آتا ہے کہ اسلام کی آمد سے قبل انسان اپنی بیٹیوں کو ذندہ مٹی میں دفن کردیتے تھے اور اس طرح ایک قتل کو انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ۔ کچھ روایات میں آتا ہے کہ والد اپنی بیٹیوں کو کھلونے ، کھانے پینے اور بھلا پھسلا کر دور جنگل میں لے جاتے اور وہاں گڑھا کھود کر بچی کو اس میں بٹھا دیتے اور اوپر سے مٹی ڈال دیتے جس سے بچی ذندہ ذندہ مر جاتی ، یہ باتیں یہ کہانیاں عالم جہالت کے وقت کی ہیں اور موجودہ دور کو ہم عالم شعور کہتے ہیں۔اسی عالم شعور کی طرف دیکھتے ہیں تو انسانیت کانپ جاتی ہے ۔ جہالت کے دور میں تو جہالت تھی لیکن موجودہ دور میں قانون ، علم ، بلکہ عالمی۔دنیا کو ایک ویلج قرار دیا گیا ہے۔ آپ دنیا بھر کے حالات و واقعات ، موسم ، سورج ، چاند بادل بارش کا نظارہ گھر بیٹھے کرسکتے ہیں ، موبائل سروس ، انٹرنیٹ کی دنیا نے براعظموں کے کروڑون میلوں کے فاصلے کو سمو دیا ہے لیکن پھر بھی اخبارات ، سوشل میڈیا اور مواصلات کے نظام میں بھی لوگ جہالت کے دور کی یادیں تازہ کرتے رہتے ہیں۔ موجودہ دور میں ایک عام انسان سہم سا جاتا ہے جب وہ آیے روز بچیوں کے ساتھ نامناسب رویے ، قتل ، غیر انسانی سلوک کے بڑھتے واقعات سنتا ہے۔یہ واقعات کوئی نئیے نہیں ہیں آئے روز ایسے واقعات سننے کو ملتے ہیں۔ ہماری ایک سوشل میڈیا ایکٹویسٹ طاہر کاظمی اپنی تحریر میں رپورٹ کرتی ہیں جس کا کچھ حصہ شامل رپورٹ کررہا ہوں ۔ طیبہ ، ارم، رضوانہ ، زہرہ شاہ ، ایمان فاطمہ ، عندلیب فاطمہ ،سونیا ، شبانہ …… اور اب فاطمہ !
نئی بات نہیں اس کے لیے … نہ جانے کتنی فاطمائیں یونہی مر چکیں ؟ 2016 میں اسلام آباد کے رہائشی جج راجہ خرم علی خان اور بیگم کے ہاتھوں دس سالہ طیبہ پر بری طرح تشدد کیا گیا ۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی ۔ جج صاحب کے اندر نہ جانے کونسی آگ بھڑک رہی تھی جس نے 2017 میں ایک اور بچی کو جلا ڈالا ۔ 2016 میں راولپنڈی کے رہائشی مالکان کے گھر سے اکثر رات کو رونے کے ساتھ یہ فریاد سنائی دیتی ، باجی مجھے باہر نکالو ، میں مر جاؤں گی ۔ ہمسایوں نے پولیس کو رپورٹ کیا ۔ 2018 رحیم یار خان کے رہائشی نے تیرہ سالہ بانو کو کھڑکی سے باہر پھینک دیا جس سے اس کی کمر ٹوٹ گئی اور وہ چھ ماہ بعد چل بسی ۔ 2016 میں لاہور کی رہائشی مالکن نے دس سالہ نازیہ شوکت کے بازو کی ہڈیاں توڑ ڈالیں ۔ گھر آنے والے ایک الیکٹریشن نے پولیس کو اطلاع دی ۔ 2017 میں ملتان کے رہائشی نے دس سالہ بچی کو مار مار کر جسم پہ نیل ڈال دیے اور جگہ جگہ سے جلد اکھڑ گئی ۔2014 میں لاہور کی رہائشی ناصرہ بی بی نے دس سالہ ارم رمضان پہ اس قدر تشدد کیا کہ وہ سروسز ہسپتال پہنچ کر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی ۔ 2014 میں لاہور اندرون شہر کے رہائشی نے پندرہ سالہ عذرا پہ جنسی تشدد کرنے کے بعد گلا گھونٹ کر مار ڈالا ۔2014 میں لاہور کے رہائشی وکیل نے بچی شازیہ مسیح کا گلا گھونٹ کر مار دیا ۔ 2020 فیصل آباد کے رہائشی رانا منیر اور ثمینہ رانا نے گیارہ سالہ بچی صدف کو بری طرح زدوکوب کیا ۔ 2020 میں راولپنڈی کے حسن صدیقی اور بیگم نے توتے کا پنجرہ کھول دینے کی سزا میں سات سالہ زہرہ شاہ کو اس قدر مارا کہ بچی موت کے گھاٹ اتر گئی ۔ 2022 میں بہاولپور کے رہائشی نے پھل چوری کرنے کی پاداش میں دس سالہ کامران کو اس قدر پیٹا کہ وہ ہسپتال جا کر چل بسا ۔ 2018 میں راولپنڈی کی رہائشی آرمی میجر عمارہ ریاض نے گیارہ سالہ کنزہ کو بسکٹ کھانے کے جرم میں مار مار کر مضروب کر ڈالا۔ 2020 میں فیصل آباد کے رہائشی رانا منیر نے گیارہ سالہ صدف پر بری طرح تشدد کیا ۔2019 فیصل آباد کے رہائشی سونیا اور رانا اویس نے سات سالہ ماریہ پر بری طرح تشدد کیا ۔2023 میں اسلام آباد کے رہائشی جج کی بیگم نے چودہ سالہ رضوانہ پر اس قدر تشدد کیا کہ وہ آئی سی یو جا پہنچی ۔ 2023 میں اسلام آباد کی ایک خاتون نے تیرہ سالہ عندلیب فاطمہ کو گرم چمچ سے مار مار کر جسم کو زخمی کر دیا ۔2021 چک جھمرہ کے رہائشی عبدالرزاق ، بیوی سونیا اور سسر نے مل کر چودہ سالہ نسرین پر اس قدر تشدد کیا کہ سڑک سے گزرنے والے راہگیر نے نسرین کی چیخیں سن کر پولیس کو اطلاع کی ۔2021 میں لاہور کے رہائشی نے تیرہ سالہ عطیہ کو آدھی رات کو گھر سے باہر نکال دیا ۔ وہ سڑک پر بیٹھی رو رہی تھی کہ کسی نے دیکھ کر پولیس کو اطلاع دی ۔ 2021 میں ڈی جی کوٹ کے رہائشی میاں فرخ کے گھر مقیم اٹھارہ سالہ سمیرہ بی بی نے پنکھے سے لٹک کر خود کشی کر لی ۔ بچی کے گھر والوں نے بتایا کہ میاں فرخ یار بچی پہ تشدد کرتا تھا۔ 2021 ایڈن ویلیو ہومز لاہور کی رہائشی سکول ٹیچر مدیحہ نے گیارہ سالہ بچی کے جسم کو گرم استری سے داغ دیا ۔2023 میں فیصل آباد کے رہائشی افتخار فیملی نے سات سالہ ایمان اور چھ سالہ فاطمہ کے جسم کو گرم چمچ سے جلانے کے بعد پنکھے سے الٹا لٹکا دیا گیا ۔ ان پر روٹی چرانے کا الزام تھا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔
یہ وہ ہیں جو کہیں نا کہیں کسی بھی طرح رپورٹ ہو چکی ہیں۔ اسی طرح اگر گھریلو خواتین بارے رپورٹ پر غور کریں تو آپ دانتوں میں۔انگلیاں دبا کر کاٹ ڈالیں گے کیونکہ ضلع لیہ میں مئی 2023 کی ایک رپورٹ برائے خواتین تشدد ضلعی پولیس لیہ سے نکلوائی تو وہ بھی میرے لئے حیران کن تھی چار مئی میں ضلع لیہ میں
یکم جنوری تا 30 اپریل 2023 چار ماہ میں جنسی ہراسگی کے کل 240مقدمات ضلع بھر میں درج ہوئے ۔جن میں گھریلو تشدد اور ہراسگی کے 61مقدمات درج ہوئے ہیں ۔خواتین کے ساتھ زیادتی (زنا بالجبر )کے 46مقدمات درج ہوئے ،اسی طرح خواتین کے اغواءکے 51مقدمات درج ہوئے جبکہ کم سن بچوں کے ساتھ زیادتی ،خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ و دیگر جرائم سے متعلق 82مقدمات درج ہوئے ہیں ۔
جنسی ہراسگی ،گھریلو تشدد ،کم سن بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کی روک تھام اور انہیں تحفظ فراہم کرنے کےلئے پنجاب کےتمام اضلاع میں اینٹی وومن ہراسمنٹ سیل کا قیام عمل میں لایا گیا ،جہاں ایک سب انسپکٹر کو بطور انچارج سمیت تعلیم یافتہ سٹاف تعینات موجود رہتا ہے ۔اینٹی وومن ہراسمنٹ سیل جنسی ہراسگی کی اطلاع کی صورت میں فوری رسپانس کرتا ہے ۔متعلقہ تھانہ کا پولیس افسر جائے وقوعہ پر پہنچ کر متاثرہ کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور ملزمان کی فوری گرفتاری کےلئے پولیس کاروائی عمل میں لائی جاتی ہے ۔ لیکن افسوس اس امر کا ہے کہ موجودہ عالم شعور میں یہ کون لوگ ہیں جو ایسے گھناونے کام کرتے ہیں۔ عالم جہالت میں تو لڑکیوں کو ذندہ درگور کرنا ، بچوں کا قتل کرنا وقت کے فرعون کا کام تھا لیکن عالم شعور میں یہ کونسے فرعون ہیں اور انکا محاسبہ کیسے ہو گا۔۔۔
میرے یہ کالم /تحریر کچھ عرصہ قبل مختلف اخبارات / ویب سائیٹ اور فیس بک وال پر شائع ہوچکے ہیں اب انکو دوبارہ اپنی ویب سائیٹ پر اپلوڈ کررہا ہوں۔ ۔۔مہر محمد کامران تھند لیہ
"These columns/writings of mine were published some time ago in various newspapers, websites, and on my Facebook wall. I am now re-uploading them on my own website.
— Mahar Muhammad Kamran Thind, Layyah”