مہر نور محمد تھند: محقق تھل اور مورخ لیہ ۔۔
تحریر ۔ مہر محمد کامران تھند
بڑا بھائی ہمیشہ والد کا نعم البدل ہوتا ہے، اور ہم وہ خوش نصیب بھائی ہیں جنہیں ہمارے بڑے بھائی نے ایک ایسا نام دیا جسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔ انہی کی بدولت آج ہمیں ادب، ادیبوں، تاریخ دانوں، ثقافتی و تہذیبی شخصیات، اولیائے کرام کے گدی نشینوں اور سماجی و سیاسی شخصیات کے ساتھ عزت و احترام کا رشتہ نصیب ہوا۔
مہر نور محمد تھند محض ایک تاریخ دان نہیں تھے بلکہ وہ تھل کی تاریخ، تہذیب، تمدن، روایات، طرزِ فکر اور طرزِ زندگی کی تحقیق و جستجو میں ہمہ وقت مصروف رہنے والے شخص تھے۔ شاید یہ ہمارے والد محترم مہر اللہ وسایا تھند اور والدہ محترمہ کی کوششوں کا اثر تھا کہ وہ علم و جستجو کے اس سفر پر نکلے۔ ہمارے والدین نے تھل کے ریگزاروں، مٹی، ریت اور اونچے ٹیلوں پر بیٹھ کر فیصلہ کیا تھا کہ ان کے بچے ضرور تعلیم حاصل کریں گے، اور مہر نور محمد تھند نے بڑے بیٹے ہونے کا حق ادا کر دکھایا۔
محقق تھل اور مورخ لیہ
مہر نور محمد تھند، جو کہ ایک چھوٹے سے گاؤں لشکری والا سے اٹھے اور مختلف علمی منازل طے کرتے ہوئے متعدد کتابوں کے مصنف بنے، لیہ کے عوام کی طرف سے محقق تھل اور مورخ لیہ کے القابات سے نوازے گئے۔ ان کی خدمات کو حکومتِ وقت نے بھی سراہا، اور جب انہوں نے مسلم لیگ کے سو سال تحریر کی، تو انہیں سندِ اعزاز اور نقد انعام سے بھی نوازا گیا۔

علمی و ادبی خدمات
تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے 1988 میں اولیائے لیہ، 1995 میں تاریخ لیہ جیسی شہرہ آفاق کتب لکھیں۔ 1992 میں اخبار لیہ کا آغاز کیا، اور یہ سلسلہ یہیں نہ رکا بلکہ مسلم لیگ کے سو سال، اولیائے بھکر، تاریخ بھکر، ماں اور اولیائے کروڑ جیسی کتب تحریر کیں، جو تاریخ کے متلاشیوں کے ہاتھوں سے ہوتی ہوئی لائبریریوں کی زینت بنیں۔
اولاد اور ورثہ
ان کی اولاد بھی اپنے اپنے شعبوں میں نمایاں خدمات سرانجام دے رہی ہے۔ بڑے بیٹے مہر محمد انور تھند ڈسٹرکٹ کوآرڈینیٹر لٹریسی ڈیپارٹمنٹ میں سرکاری خدمت انجام دے رہے ہیں، محمد عاطف تھند پیسٹی سائیڈ انڈسٹری میں کسانوں کی رہنمائی کر رہے ہیں، عرفان تھند ایم فل ریاضی کے بعد پی ایچ ڈی کی تیاری میں مصروف ہیں، مہر نعمان مختلف مصروفیات میں سرگرم رہتے ہیں، جبکہ مہر ہادی نور ابھی تعلیمی منازل طے کر رہے ہیں۔
تعلیم اور تدریسی سفر
مہر نور محمد تھند نے اپنی ابتدائی تعلیم والدہ محترمہ سے قرآن پاک کی تعلیم سے شروع کی، پھر باضابطہ طور پر گورنمنٹ ہائی سکول ہیڈ محبوب میں داخلہ لیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے لیہ شوگر ملز میں ملازمت اختیار کی، لیکن دفتری ماحول اور ٹائپ رائٹر کی مسلسل ٹھک ٹھک انہیں راس نہ آئی۔ وہ تدریس کے میدان میں آئے اور مختلف اسکولوں میں بطور معلم خدمات سرانجام دیں۔ وقت کے ساتھ وہ "نور محمد” سے "استاد نور محمد” کے لقب سے معروف ہوگئے۔
تعلیم و تدریس کے ساتھ ساتھ انہوں نے مطالعہ اور تحقیق کا شوق بھی برقرار رکھا اور ایسی کتب تحریر کیں جو انہیں ہمیشہ کے لیے امر کر گئیں۔ وہ پہلے گورنمنٹ ہائی سکول ہیڈ محبوب اور بعد میں گورنمنٹ ایم سی ہائی سکول لیہ میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔
یادیں جو کبھی ماند نہیں پڑیں گی
میں مہر اللہ وسایا تھند کا سب سے چھوٹا بیٹا ہوں، جبکہ مہر نور محمد تھند سب سے بڑے تھے۔ انہیں والدین کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا شرف حاصل رہا، جبکہ مجھے ان کا لاڈ اٹھانے کا اعزاز ملا۔ یہی وجہ تھی کہ میں اکثر ان سے اور دیگر بھائیوں سے اپنی بات منوانے میں کامیاب ہو جاتا تھا۔

جب میری سرکاری ملازمت کے دوران تبادلہ مظفرگڑھ کی تحصیل جتوئی سے بھکر کے علاقے گوہر والا ہوا تو وہاں نہ کوئی جان پہچان تھی اور نہ ہی کوئی دفتر، صرف ایک بند چوبارہ تھا۔ میں نے بھائی نور محمد سے بات کی تو انہوں نے فوراً مدد کی اور شام کو موٹر سائیکل پر گوہر والا پہنچ کر میری ملاقات دربار جنجوں شریف کے ذمہ داران سے کرائی۔ انہوں نے میری رہائش اور کھانے پینے کا بندوبست کروایا۔
اسی طرح وہ اکثر تھل کے صحراؤں میں مجھ سے ملاقات کے لیے آتے رہتے۔ ایک یادگار واقعہ مجھے آج بھی یاد ہے: میں محض پانچ یا سات سال کا تھا جب بھائی نور محمد لشکری والا سے فیملی کے ساتھ لیہ شہر منتقل ہو گئے۔ اس پر والدہ محترمہ ان سے کچھ خفا تھیں اور ہمیں ان کے گھر جانے کی اجازت نہ تھی۔ لیکن مجھے لیہ شہر جانے کا بے حد شوق تھا۔ ایک دن بھائی نور محمد لشکری والا آئے اور جب واپس جانے لگے تو میں نے ضد پکڑ لی کہ ان کے ساتھ جانا ہے۔ انہوں نے مجھے اپنی سائیکل پر بٹھایا اور لیہ شہر لے گئے۔ یہ وہ لمحے ہیں جو اب صرف یادوں میں زندہ ہیں۔
12 مارچ 2015 کو مہر نور محمد تھند ہمیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلے گئے، مگر ان کی یادیں، ان کی لکھی گئی کتابیں، ان کا اخبار، اور ان کی ہزاروں کتابوں پر مشتمل لائبریری آج بھی ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں۔ وہ نہ صرف ہمارے خاندان بلکہ تھل کی تاریخ اور علم و ادب کے لیے ایک ناقابلِ فراموش شخصیت تھے۔