میڈیا اور صحافی کو معاشرہ کی تیسری آنکھ اور کان کہا گیا ہے۔ اسکے علاوہ ریاست میں اسکو چوتھا ستون بھی کہلانے اور بنانے کی کوشش جاری و ساری ہے ۔متعدد دور میں صحافتی تنظیمیں برسرپیکار ہیں کہ اسکا اعلان سرکاری سطح پر ہو سکے لیکن پاکستان کے 76 سالوں میں صحافت کو چوتھا ستون میسر نہ آیا ہے۔ قصے کہانیوں ، تاریخ دانوں ، اخبارات ، چینلز ، ریڈیو ٹی وی کے بعد ڈیجیٹل میڈیا ، سوشل میڈیا نے دنیا کو گلوبل ویلج تک پہنچا دیا ہے۔۔ اب انٹرنیٹ کی دستیابی کے باعث ڈیجیٹل میڈیا کا دور دور دراز گاوں قصبات شہروں کی خبروں کو وسعت دے کر لمحوں میں کسی اور دسترس میں پہنچا دیتا ہے۔ ایسے میں ڈیجیٹل میڈیا پر غلط افوائیں ، فیک نیوز کی بھرمار سے عام۔انسان و ادارے بھونچال میں آ جاتے ہیں۔عوامئ مسائل ، مشکلات انکا حل اور سلجھاو مزید مشکلات کی طرف گامزن ہے۔ بطور میڈیا کارکن یہ ذمہ داری اور بڑھ گئی ہے کہ حقائق ، سچائی ، خبر کی تصدیق کے ساتھ معاشرتی رویوں کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا پڑتا ہے۔ مالی و معاشی حالات ، مہنگائی ، عدم برداشت، تعلیم و شعور کی کمی ، قوانین سے لا علمی موجودہ دور میں صنفی تشدد کا سبب بن رہے ہیں۔اور ان۔اسباب کی روک تھام کے لئیے میڈیا کارکنان کی ذمہ داری میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ لیکن ڈیجیٹل میڈیا پر اسکا پھیلاو اور مختلف انداز میں پیش کرنا ، معاشرتی رویوں کی نشاندہی کرنا ، ظالم و مظلوم کے فرق کو اجاگر کرنا بارے طریقہ کار جاننا لازم و ملزوم ہے ، میڈیا اداروں کی طرف سے اپنے نمائندگان کے لئیے اس بارے ٹریننگ سیشن کا انعقاد ، آگاہی اور طریقہ کار اور قوانین میں تبدیلیوں بارے معلومات فراہم کرنی چاہئیں۔لیکن ہمارے یہ ادارے اس طرف توجہ نہیں دے رہے جس سے معاشرہ مزید عدم استحکام کی طرف رواں دواں ہے۔ چینلز ، اخبارات و سول سوسائٹی اور سرکاری ادارے معاشرے میں بڑھتے پرتشدد رویوں پر علاقائی صحافیوں ، میڈیا نمائندگان کے لئیے ٹریننگ سیشن کا آغاز کریں جس طرح کراچی سے ایک سینئر صحافی ناجیہ عاشر کی غیر سرکاری تنظیم گلوبل نیبرہڈ فار میڈیا انوویشن کراچی سے لے کر لاہور ، ملتان، اسلام آباد ، پشاور تک کے صحافیوں کو مختلف پروگرام کے زریعے ٹریننگ کا انعقاد کرانا ہے۔ اس تنظیم کے ایک ٹریننگ پروگرام میں رائٹر کو شرکت کا موقع ملا ہے۔ اس ٹریننگ سیشن میں لاہور و پنجاب کے دیگر شہروں سے سینئر صحافیوں، تجزیہ نگاروں ، قانون دانوں ، رپورٹرز اور ٹی وی اینکرز سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ، اس ایک نشست میں صنفی تشدد، اقسام ، صنفی تشدد پر پاکستانی قوانین ، اداروں کا کردار اور ذمہ داری کے ساتھ میڈیا نمایندگان کی ذمہ داری کا علم ہوا تو احساس ہوا کہ ہم۔عرصہ سات سال سے جو صحافتی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں ان میں بہتری اور بہت کچھ مزید سیکھنے کی گنجائش ہے۔ جی این ایم أئی پائیدار مستقبل کے لئے کمیونٹیز کو بااختیار بنانے کے لئیے تمام لوگوں کے لئیے جدید ترین علمی پروگرام اور ڈیجیٹل پلیٹ فارم کا استعمال کر رہے ہیں تاکہ خواہش مند اور تجربہ کار پیشہ ور افراد کو پائیدار ،بااختیار بہتر حل تیار کرکے دیں تاکہ انکو عالمی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے قابل بنایا جا سکے ۔ مجھے گلوبل نیبرہڈ فار میڈیا انوویشن کے اس ٹریننگ سیشن میں شرکت کرکے دلی خوشی محسوس ہوئی جب وہاں اس تنظیم کے مشن و گولز بارے علم ہوا اس میں جو میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا بارے تھے ان میں سے چند۔ایک ذکرکررہا ہوں۔
ابھرتے ہوئے سماجی و شہری چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے اور مشترکہ طور پر کام کرنے ، سول سوسائٹی کے ساتھ تعاون ، میڈیا اور صحافی برادریوں کو متحرک کرنا۔میڈیا کمیونٹی اور ڈیجیٹل میڈیا میں غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے۔صحافیوں کی حفاظت اور بااختیار بنانے کے لئے اقدامات کرنا۔مقامی اور بین الاقوامی صحافیوں کی جماعتوں کے مابین ڈیجیٹل صحافت کے طریقوں کو فروغ دینا شامل تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"These columns/writings of mine were published some time ago in various newspapers, websites, and on my Facebook wall. I am now re-uploading them on my own website.
— Mehr Muhammad Kamran Thind, Layyah”
میرے یہ کالم /تحریر کچھ عرصہ قبل مختلف اخبارات / ویب سائیٹ اور فیس بک وال پر شائع ہوچکے ہیں اب انکو دوبارہ اپنی ویب سائیٹ پر اپلوڈ کررہا ہوں۔ ۔۔مہر محمد کامران تھند لیہ