تحریر : مہر کامران تھند لیہ
بڑے شہروں میں صحافیوں کے مسائل اور مضافات یا دور دراز چھوٹے شہروں میں علاقائی صحافیوں کے مسائل میں بھی جنوب مشرق کا فرق ہے۔۔ بڑے شہروں میں اداروں کا کردار ، عوام میں شعور و قوانین بارے آگاہی ، خاندانی نظام سے آذادی دیگر جزو ہیں لیکن ہمارے چھوٹے شہروں میں تعلیم و شعور کی کمی ، جاگیردارانہ نظام ، خاندان و قبیلہ برادری ازم کی وجہ سے صنفی تشدد بارے آگاہی نہ ہونا اور علاقائی صحافیوں کو مکمل معلومات ، طریقہ کار بارے بھی علم کم۔ہوتا ہے ۔ لیکن جی این۔ایم آئی کی سلسہ وار ٹریننگ سیشن سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہے۔ لاہور کےے نجی ہوٹل میں میڈم تنزیلہ جو کہ ایک اینکر تھیں نے شرکاء کو خوبصورت انداز میں معاشرتی مسائل و صنفی تشدد کی تعریف ، اقسام ،اداروں کا کردار ، قوانین ، مدد حاصل کرنے کے زرائع سمیت میڈیا نمائیندگان کا رپورٹ کرنے کا طریقہ بارے تفصیل سے آگاہی دی گئی بلکہ یہ سمجھ لیں کی ایک کلاس کا لیکچر تھا جو مفہوم و تفہیم سے سمجھایا گیا ۔۔جس طرح ہم سمجھتے تھے کہ صنف تشدد بس خواتین کے ساتھ ذیادتی ، مارکٹائی یا ایسے ہی شدید نوعیت کے واقعات سے جڑے تھے لیکن اس ٹریننگ ورکشاپ میں بہت کچھ واضح ہوا۔ ہم۔نے وہاں جو کچھ سیکھا اسکو یہاں سادہ الفاظ میں لکھنے کی جسارت کررہا ہے۔ تاکہ اس بارے آگاہی قارئین تک بھی پہنچے۔۔اور جو نوٹس ہمیں مہیا کئے گئے انکو ترجمہ کے ساتھ بھی پیش کررہا ہوں۔ کچھ مواد سوشل میڈیا ، گوگل ایپ سے بھی اکٹھا کیا ہے ۔۔صنفی تشدد سے مراد کسی بھی شخص مرد ہو یا عورت کو ان کی جنس کی وجہ سے جسمانی، جنسی، نفسیاتی یا معاشی نقصان پہنچایا جاتا ہو چاہے وہ کسی شخص کی جانب سے ہو معاشرہ کی طرف سے ہو یا گروہ کی شکل میں ہو صنفی تشدد کہلاتا ہے جنس پر مبنی تشدد سے مراد کوئی بھی نقصان دہ عمل ہے جو کسی شخص کی حیاتیاتی جنس یا صنفی شناخت اور صنفی اظہار کی وجہ سے اس کی مرضی کے خلاف کیا جاتا ہے۔ تمام صنفیں صنفی بنیاد پر تشدد کا تجربہ کر سکتی ہیں، لیکن خواتین اور لڑکیوں کو زندگی بھر اس کی ایک یا زیادہ شکلوں کا سامنا کرنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ جنس پر مبنی تشدد کا استعمال ہم جنس پرست، ہم جنس پرست، ٹرانس جینڈر، اور انٹر جنس افراد کے خلاف ہونے والے تشدد کو بیان کرنے کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔جنسی تشدد میں عصمت دری، جنسی حملہ، جنسی ہراسانی، اور جنسی استحصال شامل ہے۔جنسی حملہ غیر رضامندی جنسی رابطے کی کسی بھی شکل ہے جس کے نتیجے میں دخول شامل نہیں ہوتا ہے۔ ناپسندیدہ بوسہ لینا اور پیار کرنا یا چھونا بھی جنسی تشدد میں آتا ہے۔جسمانی تشدد کا کوئی بھی عمل ہے جو جنسی نوعیت کا نہیں ہے۔ مارنا، تھپڑ مارنا، گلا گھونٹنا، کاٹنا، دھکا دینا، جلانا، گولی مارنا یا کسی ہتھیار کا استعمال، تیزاب کے حملے یا کوئی دوسرا عمل جس کے نتیجے میں درد، تکلیف یا چوٹ ہوتی ہے۔ ذہنی یا جذباتی اذیت میں بدزبانی کرنا ہراساں ، جبری تنہائی، کسی کو قید کرنا، تعاقب کرنا، کسی کو ضروری چیزوں یا پیسےکے لیےترسانا، کسی کی تذلیل کرنا، اور کسی کو مارنے یا دوسروں کو تکلیف پہنچانے کی دھمکی دینا شامل ہیں۔ اقتصادی وسائل اور اثاثوں پر قبضہ، تعلیم، صحت اور دیگر سماجی خدمات میں مشکلات شامل ہیں۔ جیسا کہ گھر کا بڑا یا طاقتور ہونے کی صورت میں بیگم یا خاندان دوسرے فرد سے زبردستی کمائی چھیننا ، مانع حمل ادویات کے استعمال سے روکنا ، سکول یا نوکری پر جانے سے روکنا زبردستی شادی ، نابالغ لڑکی لڑکا کی شادی صنفی تشدد کے ذمرے میں آتا ہے۔۔۔کسی بھی فرد کا چاہے وہ قریبی رشتہ دار ہو یا تعلق دار کا کسی قسم۔کا غیر اخلاقی تعلق ، چھوٹے بچوں کے ساتھ جنسی تشدد ، خواتین کے ساتھ تعلقات ، یا ہم جنس پرستی بھی جنسی تشدد کے ذمرے میں آتی ہے جس کی روک تھام انتہائی لازمی ہے ایسی صورتوں میں جہاں ہم عمری یا زائد عمری کی وجہ سے رضامندی یا۔طاقت کے استعمال کے ذریعہ حاصل کی جاسکتی ہے ، گھریلو تشدد ایک ایسی اصطلاح ہے جو تشدد کو ترک کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہے جس میں جسمانی جارحیت ، جنسی جبر ، نفسیاتی زیادتی اور غیر اخلاقی رویے سلوک شامل ہیں۔ جبری یا کم۔عمر کی شادی جس کی پنجاب میں 18 سال کی عمر میں شادی کی اجازت ہے کچھ خاندانوں میں اب بھی کم عمر کی بچیوں کی شادی کردی جاتی ہے۔. صنف پر مبنی تشدد کے نتیجے میں جسمانی ، جنسی ، نفسیاتی نقصان کوئی عورت ، مرد ،لڑکی یا لڑکا ہو کو ان کی صنف کی بنیاد پر تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہ جینڈر بیس وائلنس غیر متوازناور طاقت کا غلط استعمال کا نتیجہ ہے۔ جی بی وی میں جنسی تشدد ، گھریلو تشدد ، اسمگلنگ ، جبری تعلقات ، جنسی استحصال بدسلوکی عصمت دری میں شامل ہیں۔…..
"These columns/writings of mine were published some time ago in various newspapers, websites, and on my Facebook wall. I am now re-uploading them on my own website.
— Mehr Muhammad Kamran Thind, Layyah”
میرے یہ کالم /تحریر کچھ عرصہ قبل مختلف اخبارات / ویب سائیٹ اور فیس بک وال پر شائع ہوچکے ہیں اب انکو دوبارہ اپنی ویب سائیٹ پر اپلوڈ کررہا ہوں۔ ۔۔مہر محمد کامران تھند لیہ