گاؤں کی زندگی کبھی ایک خوبصورت داستان ہوا کرتی تھی۔ شام ڈھلے جب سورج کی کرنیں کھیتوں کے سنہری خوشوں پر بکھرتیں اور کسان دن بھر کی مشقت کے بعد تھکے جسم مگر مطمئن دل کے ساتھ چوپال میں جا بیٹھتے تو یوں لگتا جیسے ساری کائنات ایک گاؤں میں سمٹ آئی ہو۔ وہاں حقے کی گڑگڑاہٹ میں کہانیاں بنتیں، فصلوں اور موسموں کے قصے چلتے، مال مویشیوں کی دیکھ بھال پر مشورے ہوتے، اور ساتھ ہی منڈی کی قیمتوں اور سیاست کے رنگین و سنجیدہ موضوعات پر گرما گرم بحثیں بھی ہوتی تھیں۔
ان محفلوں میں صرف کسان ہی نہیں بلکہ کاریگر بھی اپنی خوشبو بکھیرتے۔ نائی، کمہار، درکھان، موچی، میراثی، پاولی اور چرواہے۔۔۔ سب اپنے فن کے ساتھ گویا گاؤں کی روح میں رچ بسے تھے۔ ان کے ہنر محض روزگار نہ تھے بلکہ گاؤں کی ثقافت کا زیور تھے۔ یہ لوگ سالانہ اجرت پر کام کرتے اور بدلے میں گندم، باجرہ یا چنے کی بوری ملتی۔ یہی اناج ان کے گھروں کے چولہے جلاتا اور انہی مزدوروں کی دعاؤں سے کسانوں کے کھیت سنہری خوشبو سے مہک اٹھتے۔
مگر وقت کی تیز آندھی نے یہ روایات خس و خاشاک کی طرح اڑا دیں۔ اب وہ چوپالیں اجڑ گئیں جہاں کبھی باتوں کے چراغ جلتے تھے۔
لیہ کے گاؤں لشکری والا میں آج بھی اس روایت کی ایک مدھم کرن موجود ہے۔ یہاں کے محمد رفیق درکھان اپنے باپ دادا کے پیشے سے جڑے ہوئے ہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ پل بھر میں ایک پرانی چارپائی کو مرمت کرکے اس پر ایسے نقش و نگار بنائے کہ یوں لگا جیسے لکڑی سانس لے رہی ہو اور ہنر کی زبان بول رہی ہو۔ یہ سنہری ہاتھ کسی جادو سے کم نہیں، جو لمحوں میں بوسیدہ چیز کو نیا روپ بخش دیتے ہیں۔

اسی طرح دوسرے گاؤں میں بشیر حسین موچی سے ملاقات ہوئی۔ وہ ہاتھ سے دیسی کھسے اور چپل تیار کرنے کے ماہر ہیں۔ چمڑے کو دھونا، خشک کرنا اور سرسوں کے تیل میں بھگو کر نرم کرنا۔۔۔ یہ سب عمل گویا ایک عبادت کی طرح وہ پورے شوق اور انہماک سے کرتے ہیں۔ ان کے کھسے کبھی گاؤں کی پہچان تھے مگر اب جدید جوتوں نے ان کے ہنر کو پس منظر میں دھکیل دیا ہے۔ آج وہ بس مرمت اور پالش کرکے گزر بسر کرتے ہیں۔
یہ لمحہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہنر مندوں کے یہ سنہری ہاتھ ہمارے معاشرے کا اصل سرمایہ ہیں، جو وقت کے طوفان میں بے قدر ہو گئے۔ وہ ہاتھ جو دیہات کی ثقافت کو زندہ رکھتے تھے، اب زوال کی دھول میں دب رہے ہیں۔
کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ اگر یہ ہنر مٹ گئے تو ہماری آنے والی نسلیں ان چرچراتی چارپائیوں اور کڑکڑاتے کھسوں کی کہانیاں محض کتابوں میں پڑھیں گی، دیکھ نہ سکیں گی۔
یاد رکھیے، یہ سنہری ہاتھ مزدور نہیں، تہذیب کے امین ہیں۔ ان کی عزت، ان کی قدر اور ان کا احترام ہمارے اپنے وجود کی بقا ہے۔
یہ تحریر پہلی بار 2019 میں لکھی تھی، ۔ پرانی تصویر کے ساتھ، مگر تازہ احساس کے ساتھ۔۔۔