اسلام آباد: پاکستان کے چاول کے شعبے نے نئے مالی سال کا آغاز ملی جلی صورتحال کے ساتھ کیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جولائی 2025 میں مجموعی برآمدات میں معمولی اضافہ ہوا، تاہم باسمتی چاول کی برآمدات میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی ہے جس نے برآمدکنندگان اور پالیسی سازوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان نے جولائی 2025 میں 2 لاکھ 91 ہزار 902 ٹن چاول برآمد کیے جو گزشتہ سال کے اسی ماہ میں 2 لاکھ 70 ہزار 2 ٹن کے مقابلے میں تقریباً 21 ہزار 900 ٹن زیادہ ہیں۔ یہ اضافہ نان باسمتی چاول کی برآمدات کی بدولت ممکن ہوا جو 60 ہزار 930 ٹن بڑھ کر 2 لاکھ 39 ہزار 562 ٹن تک پہنچ گئیں۔ دوسری جانب، باسمتی چاول کی برآمدات میں 43 فیصد کمی ہوئی جو گزشتہ سال 92 ہزار 541 ٹن سے گھٹ کر صرف 52 ہزار 339 ٹن رہ گئیں۔
ماہرین کے مطابق یورپ اور برطانیہ میں براؤن رائس کی مانگ کم ہونے کے ساتھ ساتھ مشرقِ وسطیٰ میں سفید اور پربوائلڈ باسمتی کی خریداری بھی گھٹ گئی ہے، خصوصاً عمان اور سعودی عرب جیسے بڑے خریدار ممالک میں۔ اس کمی کی بڑی وجہ عالمی منڈی میں بھارتی چاول کی سستی دستیابی ہے۔ بھارتی روپے کی 2.5 فیصد کمی نے ان کی برآمدات کو مزید مسابقتی بنا دیا ہے جبکہ پاکستانی روپے کی قدر میں اضافہ مقامی برآمدکنندگان کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔
برآمدکنندگان نے شکایت کی ہے کہ محکمہ پلانٹ پروٹیکشن اور نیشنل ایگری ٹریڈ اینڈ فوڈ سیفٹی اتھارٹی کی غیر ضروری پابندیوں اور تاخیری معائنہ پالیسیوں کے باعث شپمنٹس میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔ ان کے مطابق اس وجہ سے کئی آرڈرز منسوخ ہو گئے اور غیر ملکی خریداروں کا اعتماد متاثر ہوا ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری طور پر پالیسی اصلاحات اور باسمتی چاول کی مؤثر مارکیٹنگ نہ کی گئی تو پاکستان اپنی ممتاز پوزیشن کھو سکتا ہے۔ برآمدکنندگان کے مطابق پرانے خریدار بھی سستے متبادل کی طرف جا رہے ہیں جو ملکی معیشت کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔