غلط فہمی دیمک کی طرح رشتوں کو چاٹتی رہتی ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ مضبوط سے مضبوط تعلق کی بنیادیں بھی لرز جاتی ہیں۔ انسان کا دل شکوک و شبہات کی آگ میں جلنے لگتا ہے۔غلطی فہمی تب پیدا ہوتی ہے جب انسان بات کو سنتا تو ہے مگر اُس کا اصل پس منظر نہیں دیکھتا۔ وہ اپنی مرضی سے مفہوم تراشتا ہے اور یوں حقیقت پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ کہنے والے کی نیت کیا ہے؟ مقصد کتنا سادہ یا نیک ہو سکتا ہے؟ یہ سوالات ذہن کے دریچوں میں بند رہتے ہیں اور اپنی دانست کے بناوٹی جواب کو سچ مان لیا جاتا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جب غلط فہمی کا بیج دماغ میں اترتا ہےوقت گزرنے کے ساتھ درخت بن کر شاخیں پھیلانے لگتا ہے۔
کسی کی بات سمجھ نہ آنے پر وضاحت طلب کرنے کے بجائے اپنی سوچ کا بوجھ اُس پر ڈال دینا، یا وضاحت ملنے کے بعد بھی ضد پر قائم رہنا، دراصل تنگ دلی اور انا پسندی کی علامت ہے۔ یہ رویہ انسان کو تنہائی کے اندھیروں میں دھکیل دیتا ہے اور قریبی رشتوں میں بھی اجنبیت بھر دیتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ کبھی کبھی آنکھیں جو دیکھتی ہیں وہ حقیقت نہیں ہوتی، کان جو سنتے ہیں وہ دھوکہ بھی ہو سکتا ہے۔ انسان کے اپنے حواس بھی اسے فریب دے سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ جلدبازی سے گریز کیا جائے اور دوسروں کو وضاحت کا موقع دیا جائے ۔ یہی رویہ رشتوں کو بکھرنے سے بچاتا ہے اور زندگی میں محبت، اعتماد اور سکون کی فضا قائم رکھتا ہے۔
غلط فہمی کا انجام ہمیشہ کرب اور ندامت ہے۔ جب حقیقت کا نقاب اٹھتا ہے تو انسان کے پاس صرف پچھتاوا رہ جاتا ہے۔ وہ اپنے اُس کم زور لمحے کو یاد کر کے کڑھتا ہے جب وہ سچائی تک پہنچ سکتا تھا مگر اس نے اپنے وہم کی زنجیروں کو توڑنے کی جرات نہ کی۔
پچھتاوا کبھی زخموں کا مرہم نہیں بن سکتا۔ یہ نہ تو گزرے ہوئے لمحوں کو واپس لا سکتا ہے اور نہ ہی ٹوٹے ہوئے رشتوں کو جوڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بل کہ یہ ایک ایسی آگ ہے جو انسان کو اندر ہی اندر جلاتی رہتی ہے اور رفتہ رفتہ روح تک کو جلا دیتی ہے۔ بعض اوقات یہ احساسِ ندامت موت سے بھی زیادہ اذیت ناک ثابت ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اپنے رویوں کا محاسبہ کیا جائے، رشتوں کو سنبھالنے کے لیے صبر و حوصلے اور بردباری کو اپنا شعاربنایا جائے۔ کوئی بھی سخت اور تلخ فیصلہ کرنے سے پہلے اتنا سوچ لینا چاہیے کہ انسان کی جگہ کوئی دوسرا نہیں لے سکتا، کیونکہ ہر رشتہ اپنی نوعیت میں بےمثل اور اپنی اہمیت میں انمول ہوتا ہے۔
غلط فہمیاں وقتی دھند کی طرح چھا جاتی ہیں۔ اگر صبر، تحمل اور اعتماد کی روشنی کو تھام لیا جائے تو یہ دھند چھٹ جاتی ہے اور رشتے اپنی شفاف روشنی کے ساتھ جگمگا اٹھتے ہیں۔

عبداللطیف قمر کے کالم اب "لیہ میڈیا ہاؤس” کی ویب سائٹ پر شائع ہوں گے
مشہور ادیب و صحافی عبداللطیف قمر کا تعلق بنیادی طور پر ڈیرہ دین پناہ سے ہے، تاہم وہ ایک عرصہ دراز سے ضلع لیہ میں اپنی ادبی و صحافتی سرگرمیوں کے ذریعے قارئین کے دلوں میں جگہ بنائے ہوئے ہیں۔ ان کی تحریروں میں ادب کا حسن اور صحافت کی سنجیدگی یکجا نظر آتی ہے۔
عبداللطیف قمر کے کالم نہ صرف قارئین کو فکر و تدبر کی نئی راہیں دکھاتے ہیں بلکہ ادب و صحافت کے حسین امتزاج کے باعث مقامی سطح پر ایک نمایاں پہچان رکھتے ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اب ان کے کالم باقاعدگی کے ساتھ "لیہ میڈیا ہاؤس” کی ویب سائٹ پر بھی شائع ہوں گے، جس سے قارئین کو ان کی تخلیقات بآسانی دستیاب رہیں گی۔