پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی معیشت کا انحصار بنیادی طور پر پانی پر ہے۔ مگر افسوس کہ ہمارے پالیسی سازوں نے پانی ذخیرہ کرنے کے پائیدار منصوبوں کے بجائے زیادہ تر توجہ موٹرویز اور شاہراہوں کے جال بچھانے پر مرکوز رکھی۔ بلاشبہ جدید شاہراہیں ترقی کے لیے ضروری ہیں، لیکن جب کسان کے کھیت پیاسے رہ جائیں، اور فصلوں کو سیراب کرنے والا پانی سمندر میں جا گرے گا اور اس سے پہلے وہ اربوں روپے کی قیمتی املاک تیار کھڑی فصلات گھر اور قیمتی انسانی جانیں لے ڈوبے گا یہ سوچنا حکومتوں کی پہلی ترجیح ہونا تھا جب ہر سال سیلاب سے سینکڑوں جانیں ضائع ہوں اور اربوں روپے کی فصلات ڈوب جائیں، تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ اصل ترجیح کس چیز کو ملنی چاہیے؟سرکار دوسرے درجے پر اتی ہیں کیونکہ فوڈ سیکیورٹی اگر مکمل طور پر سیکیور نہیں ہوگی تو پھر ان سرکار کا ان گھروں کا ان ریلز اسٹیٹ کالونیوں کا کیا فائدہ اور ان میں جو لوٹ مار اس طرح سے کی گئی کہ پنجاب کے ہر دریا کی زمین جو دریا کے بیڈ کے طور پر رہنی چاہیے تھی وہ اپنے پیاروں کو الاٹ کر دی گئی جہاں انہوں نے کاشتکاری کی اور شہری ابادی کے ساتھ تمام میں کالونیاں بنا دی گئی ریل اسٹیٹ والوں کو کھربوں روپے مفت میں دے دیے گئے اور بیوروکریسی نے بھی اس میں ہاتھ رنگے نقصان کس کا ہوا جب اج کہیں 30 سال بعد اور کہیں 50 سال بعد پانی ایا ہے تو ان غریب لوگوں کا جن کی جمع پونجی سے گھر کے ایک خواب کو پورا کرتے کرتے وہ ان لینڈ مافیا کو اپنی جمع پونجی دے کر گھر بنا بیٹھے تھے وہ ان دریا کے پانی کی نظر ہو گئے اج وہ خوبصورت ریل اسٹیٹ کی سڑکیں کیچڑ اور پانی سے بھری پڑی ہیں گھر مکمل طور پر ڈوب کر تباہ ہو گئے ہیں اور یہاں پھر یہ سوچ غالب ہے کہ ان لوگوں کو ڈرا کر دوبارہ ان سے اونے پونے داموں خرید لی جائیں گی اور پھر ان کے ارد گرد کروڑوں روپے کے سرکاری فنڈز سے دیوار نما نئے سپربند بنائے جائیں گے تاکہ یہ کالونیاں پھر وہ بیچ سکیں اور اپنے پیاروں کو پھر نواز سکیں اور ان دیواروں سپرز کے باہر پانی کے لیے جو جگہ بنائی جائے گی وہ پھر ان غریب لوگوں کو ڈبونے کے لیے ہوگی ان کے فصلات ان کے گھر بار ان کے مال مویشی اسی طرح پھر ڈوبتے رہیں گے اور وہ پریشان ہوں گے لیکن ائندہ چند سالوں میں ڈیمز کی بجائے ان کالونیوں کی سیفٹی کے لیے ضرور بندوبست کیا جائے گا
پاکستان میں ڈیمز کی صورتحال قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک ملک میں تقریباً 155 چھوٹے بڑے ڈیمز تعمیر کیے گئے، جن میں تربیلا، منگلا اور میرانی ڈیم بڑے منصوبے ہیں۔ تاہم یہ گنجائش بڑھتی آبادی، زرعی ضرورت اور موسمیاتی تغیرات کے مقابلے میں ناکافی ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں صرف 30 دن کے پانی کے ذخائر موجود ہیں، جبکہ ایک زرعی ملک کے لیے کم از کم 120 دن کی ضرورت ہے۔
پنجاب حکومت کا 60 ڈیمز بنانے کا اعلان موجودہ پنجاب حکومت نے تین سال قبل 60 ڈیمز تعمیر کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ نہ تو کوئی منصوبہ بندی کی گئی، نہ فنڈز مختص ہوئے اور نہ ہی کوئی عملی پیشرفت سامنے آئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قدر بڑے منصوبے صرف بیانات تک محدود رہے۔ایسے بیانات ہر سیلاب کے بعد دیے جاتے رہے لیکن سیلاب اترنے پر فوٹو سیشن اس پر اپنی تصویر اور راشن کا ایک پیکٹ جس میں ناقص مٹیریل پر مبنی اشیا خرد نوش تھی یا اٹے کا ایک تھیلا دے کر خوش کر دیا گیا پھر اس سے بڑھ کر 10 ہزار سے 25 ہزار روپے سروے کے نام کے بعد ان علاقوں کو دیے گئے جہاں سیلا بھی نہیں ایا تھا اب بھی یہی کام ہوگا یا اس سے کم ہو سکتا ہے پڑھ نہیں سکتا کیونکہ یہ خوراک کے ایٹمز صرف ان کو ملیں گے جہاں کہیں وہ منتخب نمائندے موجود ہیں اور ان جگہوں پر جہاں مسلم لیگ نون نے جیت ہی نہیں سکی وہاں ان کو دیے جائیں گے جو کبھی بھی حقیقی متاثرین تک نہیں پہنچ سکتے یہاں کی بیوروکریسی شاہ سے زیادہ شاہ کی وفادار بنی ہوئی ہے 50 سال سے حکمران ہیں جنہوں نے انہیں بھرتی کیا ہے اب وہ انہیں خوش کرنے کے لیے ہر وہ اقدام اٹھاتے ہیں جیسا یہ کہتے ہیں اس لیے عوام اج بھی اپنی بکریوں کے ریوڑ کو لے کر اپنے مال مویشیوں کو ریوڑ کے لے کر گھر گھر بدر ہوتے رہیں گے اور پنجاب پورا جس طرح سے ڈوبا ہے اور جس طرح سے ایک بڑی ابادی جو لاکھوں کی تعداد میں متاثر ہوئی ہے وہ تاریخ میں صرف لکھی جائے گی کہانیاں پڑھی جائیں گی اور سوشل میڈیا کے ذریعے لوگ دیکھتے رہیں گےسیلاب اور حکومتی بے حسی تین سال قبل موجودہ حکومت ہی کے دور میں ایک بڑا سیلاب آیا۔ اس وقت بھی یہی سوال اٹھا تھا کہ کیا ہم نے مستقبل میں سیلابوں سے بچاؤ کے لیے کوئی تدابیر اختیار کی ہیں؟ مگر نہ ڈیم بنائے گئے، نہ نہری نظام کی صفائی ہوئی، نہ موجودہ ڈیموں کی گاد نکالنے پر توجہ دی گئی۔ افسوس تو یہ ہے کہ دریاؤں کے قدرتی راستوں پر لینڈ مافیا کو زمینیں الاٹ کی گئیں اور سوسائٹیاں قائم کرنے کی کھلی اجازت دی گئی۔2025 کا المناک سیلاب
نتیجہ یہ نکلا کہ 2025 کے حالیہ سیلاب نے ایک بار پھر سینکڑوں جانیں لے لیں، اربوں روپے کی فصلات اور گھروں کو تباہ کر دیا۔ دریائی راستوں میں بنائی گئی رئیل اسٹیٹ میں غریب عوام کی جمع پونجی ڈوب گئی۔ اگر حکومت نے ڈیمز کی تعمیر اور دریاؤں کے راستوں کی بحالی کو ترجیح دی ہوتی تو آج صورتحال مختلف ہو سکتی تھی۔
پاکستان کو اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ترقی کا مطلب صرف موٹرویز اور پل بنانا ہے یا آنے والی نسلوں کے لیے پانی محفوظ کرنا بھی ضروری ہے۔ موٹرویز ہمیں تیز رفتار سفر تو دے سکتی ہیں مگر پانی کے بغیر کھیت بنجر اور صنعتیں بند ہو جائیں گی۔ اصل ترقی وہ ہے جو زمین کو زرخیز، کسان کو خوشحال اور ملک کو خودکفیل بنائے۔کاشتکاروں کو دریائی پانی سے ڈبونے کے بجائے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیے انہیں وسائل مہیا کیے جائیں ان کی فصلات کا معقول معاوضہ دیا جائے ان کے نقصانات کے لیے وسائل سے بڑھ کر خدمت کی جائے تاکہ فوڈ سیکیورٹی یقینی ہو پھر موٹرویز بھی اچھی لگتی ہیں اور خوبصورت بہتے دریا کے کنارے کنکریاں پھینک کر پکنک مناتے بھی ہم اچھے لگیں گے اور انے والی بارشوں کا نظارہ کر سکیں گے کہ پانی اپنے ہی لین میں جا رہا ہوگا نہ کہ ان کے راستوں پر ریل اسٹیٹ کے نام پر کالونی بنا دی جائیں تاکہ پھر ان میں ان عام ادمیوں کا اربوں روپے ڈوب جائے اور صرف چند ہاتھ وہ پیسہ کما کر جہازوں میں گھومتے نظر ائیں
ریاض احمد جھکڑ کا شمار خطۂ نشیب کے سنجیدہ اور معتبر لکھاریوں میں ہوتا ہے۔ آپ کا تعلق جھکڑ خاندان سے ہے جو علاقے میں اپنی علمی و سماجی خدمات کے حوالے سے نمایاں مقام رکھتا ہے۔ سرکاری ملازمت کے دوران محکمہ تعلقاتِ عامہ میں بھرپور ذمہ داریاں سرانجام دینے کے بعد آپ نے ریٹائرمنٹ کے بعد صحافت کو ذریعہ اظہار بنایا۔روزنامہ نوائے تھل میں مستقل کالم نویس کے طور پر آپ کا قلم ’’رائے عامہ‘‘ کے عنوان سے کسانوں کے مسائل، شہری زندگی کے دکھ درد اور علاقائی مسائل پر روشنی ڈالتا ہے۔ آپ کی تحریریں عوامی شعور کی بیداری اور مسائل کے حل کی جستجو کا آئینہ ہیں۔

اب لیہ میڈیا ہاؤس کی ویب سائٹ پر بھی ریاض احمد جھکڑ کے کالم قارئین کے لیے دستیاب ہوں گے، تاکہ ان کی فکر اور آواز وسیع تر حلقوں تک پہنچ سکے۔