موجودہ دنوں میں کرونا وائریس کی وبا کے خدشات میں روزبروز اضافہ سننے میں آرہا ، سب سے پہلے ہمسایہ دوست ملک چین سے خبریں ملیں۔کہ وہاں کرونا سے ہزاروں لوگ متاثر ہو چکے ہیں جس سے 3% اموات بھی ہوئی اس دوران چین نے دس دن کے اندر کرونا سے متاثرین کے لئیے ایک جدید ترین ہسپتال بھی تیار کی ۔ کچھ دنوں سے اچھی خبریں بھی ملنے لگیں کہ وہاں اس وبا پر کنٹرول کرلیا گیا ہےاور عوام تیزی سے تندرست ہورہی ہے ۔ اسی دوران سوشل میڈیا پر افوائیں زیرگردش رہیں کہ چونکہ چینیز دیگر ایسی ویسی ایشیا کھاتے ہیں جس سے انکو یہ بیماری متاثر کررہی ہے اسی دوران اسلامی ممالک ایران ، افغانستان و سعودی عرب سے بھی اطلاعات آنا شروع ہوئی کہ کرونا کے متاثرین یہاں بھی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں دونوں اسلامی ممالک میں پاکستانیوں کی کثیر تعداد مقامات مقدسہ کے لئیے آتے جاتے ہیں جس سے یہ بیماری ایسے چند افراد کے زریعے پاکستان میں پہنچی ، جن کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا تو اس دوران حکومت پاکستان نے کرونا کے ممکنہ خدشات کے پیش نظر سرکاری تعلیمی اداروں ، کالجز ، یونیورسٹیز میں چھٹیاں کردیں تاکہ اسکے پھیلاو کو روکا جا سکے ، سرحدوں کو مکمل طور پر سیل کردیا گیا اور دیگر برادر اسلامی ممالک سےواپس آنے والے افراد کی سکریننگ کی جارہی ہے ،

ساتھ میں ملک بھر میں دفعہ 144 نافذ کردی گئی ہے۔ ایسے اقدامات قابل تعریف ہیں کہ اس وبا کو پھیلنے سے روکا جائے ۔ اسی طرح چونکہ ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے جس کی 70% آبادی دیہات میں رہائش پزیر ہے اور اسی شعبہ سے وابستہ ہو کر خوراک پیدا کررہی ہے انہی کسانوں کی اہم ترین اور منافع بخش فصل گندم ہے جس کو موجودہ دنوں میں فنگس ٹائپ کےوائرس نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اسکے مختلف علاقوں میں رسٹ ، کنگی ، رتی اور فنگس کے نام دئیے گئے ہیں جس کی وجہ کسانوں کو اسکے بارے میں معلومات اور تدارک نہ ہے ، موسم سرد ہوتے ہی نمی کی وجہ سے اسکا پتہ زرد ہونا شروع ہوجاتا ہے ، پتوں پر زنگ لگنا شروع ہوجاتا ہے جس سے گندم کا پودہ خوراک کی کمی کا شکار ہوجاتا ہے اور دانہ کمزور ہونے کے باعث پیداوار میں کمی ہوجاتی ہے ، اس حوالے سے پنجاب میں زراعت کا ایک مکمل محکمہ موجود ہے لیکن انکا عملہ کسانوں کو بروقت مشورہ دینے کے سرکاری گاڑیوں اور دفتروں کی عیاشی میں مصروف رہتا ہے جس کی ایک مثال یہ دوں گا کہ میں خود چونکہ ایک کاشتکار فیملی سے تعلق رکھتا ہوں خود اور بھائی بھی فصلیں کاشت کرتے ہیں ، محکمہ زراعت کے افسران کے ساتھ دعا سلام کے باوجود آج تک محکمہ کا کوئی بھی افسر میری بستی میں نہیں آیا اور نہ کبھی زرعی مشورہ دیا ہو۔ اسی طرح شہر اور گردونواح کی سڑکوں کی۔حالت زار دیکھتے ہیں تو یہاں کرونا سے زیادہ خوگ مررہے ہیں اور روزانہ کی۔بنیاد پر مررہے ہیں لیہ میں۔کروڑ روڈ ، ٹیل انڈس روڈ ، چوک اعظم روڈ اور اسے سے آگے لاہور کی جانب سفر کے لئیے جو سہولیات میسر ہیں وہ سب کے سامنے ہیں ،

ملتان میانوالی روڈ جس پر روزانہ کی بنیاد پر درجنوں افراد زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں اور عوام نے تو اسے خونی روڈ کا نام بھی دیا گیا یہی نام دیگر اضلاع کے لوگوں نے اپنی سڑکوں بھی دیا ہوا ہے جیسے انڈس روڈ ، مظفر گڑھ علی پور روڈ ، بھکر کلورکوٹ روڈ اور بھی بہت سے ہیں یہاں اگر ہم محکمہ ریسکیو 1122 کی روزانہ کی ڈائریز پر غور کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ پاکستان میں کرونا وائرس سے زیادہ خطرناک ہماری یہ سڑکیں بن چکی ہیں ۔ لہذہ حکومت پنجاب اور پاکستان کو چاہئیے کہ جس طرح کرونا کے لئیے ایمرجینسی نافذ کی گئی ہے اگر اسی طرح محکمہ زراعت میں بھی ایمرجینسی نافذ کی جائے کسانوں کےلئیے ان محکموں کو فعال کیا جائے تاکہ کہیں کل ہمیں خوراک کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے تو ساتھ میں ان سڑکات کی حالت زار پر کام کیا جائے تو کرونا جیسی مہلک بیماریوں سے ہم بہتر انداز میں لڑ سکتے ہیں
یہ کالم اصل میں 2020 میں شائع ہوا تھا اور اب اسے فیس بک سے کاپی کر کے دوبارہ اپ لوڈ کر دیا ہے۔