پاکستان میں ہر بڑی قدرتی آفت یا بحران کے بعد ایک جملہ اکثر سننے کو ملتا ہے کہ “ملک 30 سال پیچھے چلا گیا ہے”۔ حالیہ سیلابی تباہ کاریاں بھی اسی جملے کے ساتھ جوڑی جا رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان واقعی 30 سال پیچھے چلا گیا ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو کیا گزشتہ 30 برسوں میں حکمران طبقات نے اس ملک کو آگے بڑھانے کے بجائے پیچھے دھکیلنے میں کردار ادا کیا ہے؟30 سال قبل بھی موجودہ حکمران جماعت کی حکومت تھی یہی بھارت تھا اور یہی وہ خطرہ کہ وہ کبھی بھی اپنے ڈیمز کے دروازے کھول سکتا ہے پھر بدلتے موسمی حالات سے بھی پوری دنیا کو اگاہی مل رہی تھی اور پاکستانی حکمران قرض سے لیے گئے پیسوں سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں لگے رہے پھر دو جماعتیں اکٹھی ہو گئیں اور اب مل کر وہ جماعت جو اچھی طرح جانتی ہے کہ اسے ختم کرنے کے لیے کیا کیا حربہ استعمال نہیں کیا گیا اج وہی جماعت دوسری جماعت سے مل کر ایک ایسی سیاسی پارٹی جو پاکستان میں اکثریت رکھتی ہے اسے لتاڑنے نہیں پر لگے ہوئے ہیں یہاں پر
تاریخ کا تلخ سوال بنتا ہے کہ
یہ بھی حقیقت ہے کہ 30 سال پہلے بھی ملک پر وہی سیاسی جماعت یعنی مسلم لیگ (ن) برسراقتدار تھی، اور آج بھی سیاسی میدان میں اسی جماعت کی قیادت عوام سے ووٹ لینے کے لیے یہ دلیل دے رہی ہے کہ “ملک کو سنبھالنے کے لیے ہمیں مزید 30 برسوں کا تسلسل چاہیے”۔ اگر پچھلی تین دہائیوں میں کوئی پائیدار اقدامات نہ کیے جا سکے تو پھر یہ سوال اٹھنا فطری ہے کہ اگلے 30 سالوں میں کیا معجزہ رونما ہو گا؟ پاکستانی قوم کہ یہی مقدر ہیں کہ وہ غربت کی لکیر کے نیچے چلی جائے اس سے روزگار چھین لیا جائے عام ادمی کی بجائے یہاں اشرافیہ کا راز قائم ہو اور غریب یہ کہنے پر مجبور ہو کہ غریب غریب ہی رہتا ہے وہ کبھی امیر نہیں بن سکتا پاکستان کے موجودہ معاشی سسٹم میں یہاں سوال یہ بھی ہے کہ
ڈیمز کیوں نہ بن سکے؟
پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی معیشت پانی پر منحصر ہے، مگر بدقسمتی سے گزشتہ کئی دہائیوں میں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے بڑے ڈیمز تعمیر نہ کیے جا سکے۔ 1990 کی دہائی سے آج تک ہر حکومت نے ڈیمز کے منصوبوں کے نعرے تو لگائے مگر عملی پیش رفت نہ ہو سکی۔ 2022 کے سیلاب میں یہ حقیقت واضح ہوئی کہ اگر ہمارے پاس مناسب ذخائر اور انتظامی ڈھانچہ ہوتا تو لاکھوں شہریوں کو ڈوبنے سے بچایا جا سکتا تھا۔اس بات کا ادراک حکمرانوں کو بھی تھا کہ بھارت سے پانی کا خطرہ ہمیشہ سے رہتا رہا ہے اور وہ سندھ طاس منصوبے کی خلاف ورزی ہمیشہ کرتا ہے
پاکستان ہمیشہ سے اس خطرے میں رہا ہے کہ بھارت کسی بھی وقت پانی چھوڑ کر پاکستان کے دریائی علاقوں کو متاثر کر سکتا ہے۔ 2022 میں بھی یہی ہوا اور لاکھوں ایکڑ زمین زیرِآب آ گئی۔ سوال یہ ہے کہ جب یہ خطرہ ہمیشہ سے موجود تھا تو اس کے تدارک کے لیے کوئی مؤثر پالیسی کیوں نہ بنائی گئی؟ کیا یہ غفلت حکمرانوں کی نااہلی نہیں؟کیا عوام کا مقدر یہی ہے اس عوام کا حال یہی رہے گا کہ آج لاکھوں شہری بے گھر ہیں، کھیت کھلیان برباد ہیں، مویشی ہلاک ہو چکے ہیں۔ لوگ حکومتی امداد کے منتظر ہیں لیکن کوئی جامع بحالی منصوبہ نظر نہیں آ رہا۔ عالمی ادارے اور دوست ممالک سے اربوں ڈالر کے قرض اور امداد کی اپیلیں کی جا رہی ہیں مگر اس کا بوجھ بھی بالآخر عوام ہی پر پڑے گا۔اٹے کی تھیلی دے کر اور فوٹو سیشن کے بعد بات ختم ہو گئی اس کاذمہ دار کون؟ہے یہ تعین کون کرے گایہ سب سے بڑا سوال ہے۔ ہر بار ایک نئی تباہی کے بعد حکمران روتے ہیں، بیان دیتے ہیں اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے۔ مگر کبھی کسی حکومت یا کسی رہنما کو ان پالیسی ناکامیوں کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔ جب تک احتساب اور جوابدہی کا سخت نظام قائم نہیں ہوتا، پاکستان ہر آفت کے بعد اسی طرح پیچھے دھکیل دیا جائے گا۔78 سالہ پاکستان اور حکمرانی کی سیاست صرف دو خاندانوں کے گرد گھومتی ہے جو اج اکٹھے ہو کر اپنے اتحادیوں کے ساتھ حکمرانی کے مسند پر فائض ہیں پاکستان اب 78 برس کا ہو چکا ہے۔ یہ ایک بوڑھے ملک کی عمر ہے، لیکن اس کی سیاست اب بھی خاندانوں کے گرد گھوم رہی ہے۔ ایک ہی جماعت کے میاں برادران کی چوتھی نسل تک اقتدار میں رہنے کی خواہش اس بات کا اظہار ہے کہ ملکی ترقی نہیں بلکہ خاندانی اقتدار ان کا اصل ہدف ہے۔پاکستان کو 30 سال مزید ایک ہی جماعت یا خاندان کو دینے کے بجائے، اداروں کو مضبوط بنانے، قومی منصوبوں کو ترجیح دینے اور عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ جب تک ڈیمز، آبی ذخائر، جدید زراعت اور شفاف حکمرانی کو ہدف نہیں بنایا جائے گا، تب تک ملک ہر بحران کے بعد 30 سال پیچھے نہیں بلکہ مزید اندھیروں میں دھکیل دیا جائے گا۔اگر پھر ایسے کیا گیا تو یہی سننے کو ہی ملے گا اج اپ دیکھ لیں کہ اب تک کتنا نقصان ہو چکا ہے سیلاب نے ہمارے پنجاب میں کیا کیا ہے
ملک 30 سال پیچھے یہ کہہ کر سیلاب نے تقویت دی پاکستان میں ہر بڑی آفت کے بعد یہی الفاظ سننے کو ملتے ہیں: “ملک 30 سال پیچھے چلا گیا”۔ حالیہ سیلابی بحران نے یہ فکر نئے سرے سے ابھری کہ اگر پچھلے 30 سالوں میں بنیادی مسائل ختم نہ ہوسکے تو آئندہ 30 سالوں میں کیا تبدیلی آئے گی؟سیلابی نقصانات کے تازہ اعداد و شماربی حد تباہی: پاکستان بھر میں 2025 کے مون سون میں تقریباً 900 افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے ہیں ۔متاثرہ افراد کی تعداد،اندراجی اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 41 ملین افراد متاثر ہوئے ہیں ۔
ضلعوں اور گاؤں کی تباہی: پنجاب میں 8,400 سے زائد گاؤں اور 10.5 لاکھ ایکڑ سے زیادہ زراعتی زمین زیرِ آب آگئی، جبکہ تقریباً 5.1 ملین افراد متاثر ہوئے اور 1.9 ملین افراد کو بچایا گیا ۔پنجاب کی تباہی کا دائرہ: دیگر رپورٹوں کے مطابق پنجاب کے 3,900 گاؤں متاثر اور 2 ملین افراد زیرِ اثر آئے ۔سیلاب سے انسانی بحران: پنجاب میں 122,000 افراد صرف ایک رات میں بے گھر ہوئے، اور 2.2 ملین افراد مجموعی طور پر منتقل کیے گئے ۔سندھ میں پیشگی اقدامات سندھ میں 100,000 سے زائد افراد سیلابی خطرے کی پیشگی اطلاعات پر محفوظ مقامات پر منتقل کیے گئے ۔معاشی تباہی، زرعی شعبے کو زبردست دھچکہ لگا—چاول میں تقریباً 60٪ نقصان، گنے میں 30٪ اور کپاس میں 35٪ تک نقصان ہوا ۔زیرِ آب آنے والے گاؤں Reuters کے مطابق پنجاب میں 2,000 گاؤں مکمل طور پر زیرِ آب آچکے ہیں، تقریباً 760,000 افراد اور 516,000 مویشی محفوظ مقام پر منتقل کیے گئے ۔کے پی کے میں بادل پھٹنے کا اثر: خاص طور پر بونر اور دیگر پہاڑی علاقوں میں کلاؤڈ برسٹ والے سیلابوں نے 300 سے زائد افراد کی ہلاکتیں اور وسیع پیمانے پر تباہیاں واقع کیں ۔
قومی لحاظ سے مقامی انتظامی رپورٹ،NDMA کے مطابق 26 جون کے بعد تقریباً 900 اموات، 1,000 سے زیادہ زخمی، اور 250,000 افراد بے گھر ہوئے ۔عالمی نقطہ نظر، 2022 کے سیلاب کے مقابلے میں اس مرتبہ زرعی اور انسانی نقصان مساوی حد تک تباہ کن ہے، جبکہ اندازاً سربلندی کے بعد کل نقصان اربوں ڈالر تک پہنچ سکتا ہے ۔آئندہ 30 سال کا مطالبہ ایک خاندان کا خواب؟جب گزشتہ 30 برسوں میں ڈیم یا مؤثر پانی ذخیرہ کرنے کے منصوبے نہیں بن سکے تو دوسری طرف ملک کی حکمران جماعت آئندہ 30 سالوں تک تسلسل چاہتی ہےیہ مطالبہ جمہوریت بلکہ ملک کی ترقی کے لیے خطرے سے خالی نہیں۔
کیوں ڈیم نہ بن سکے؟کون ذمہ دار ہےبار بار سیلابی خطرہ، بھارت کی جانب سے غیر متوقع پانی کی ریلیز، ناقص انتظامی حکمتِ عملی—ان تمام عوامل کے باوجود بنیادی ڈھانچے جیسے ڈیم پر کام نہ ہونا لاہور سے لے کر اسلام آباد تک نااہلی کی عکاسی ہے۔لاکھوں ماں باپ، بچے، کسان، محنت کش بے گھر—انہیں کوئی چھت، صاف پانی، یا روزی کا ذریعہ میسر نہیں۔ امدادی کیمپ اور بین الاقوامی امداد تو دستیاب ہورہی ہے، لیکن بحالی اور روزگار کا مستقل انتظام نا مکمل۔ قرضوں کا بوجھ ملک پر مزید بڑھ گیا، اور عوام ہی اس کی اصل متحمل ہوں گے۔ہر بحران کے بعد اخبارات کے لچھے، زبانی دعوے، اور ریکارڈ پر اقوامِ متحدہ سے امداد کی اپیل حضور میں۔ لیکن کسی کسی کو حقیقی احتساب کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ حکمرانوں کی ناکامی کو شناخت اور تعین نہ کرنے سے ملک ہر بار یہی چکر دہرائے گا۔پاکستان اب 78 سال کا ہے، مگر اب تک ایسی ترقی یا مضبوط انتظامی پالیسی سامنے نہیں آئی جو مستقبل کو تحفظ دے سکے۔ ملک کو صرف ایک خاندان یا پارٹی کو مزید 30 سال دینا ممکنہ طور پر بحرانوں کا تسلسل دے گا، نہ کہ ان کا حل۔ضروری ہے:
مختصر المدتی اور طویل المدتی ڈیم اور آبی ذخیرہ کی منصوبہ بندی سیاسی و حکومتی شفافیت
انتظامی جوابدہی اور احتساب
موسمیاتی خطرات کا سامنا کرنے کے لیے ضروری انفراسٹرکچر کی تعمیر
عوامی بحالی، زرعی سپورٹ، اور روزگار کے منصوبوں کا بروقت آغاز یہ سیلاب محض قدرتی آفت نہیں، یہ نظامی غفلت کی نشاندہی ہےاور اگر حل نہ کیا گیا تو یہ پاکستان کو مزید 30، بلکہ 50 سال پیچھے دھکیل سکتا ہے۔