ہم کس طرح سے 78 سالوں سے سیلاب ایسی قدرتی افات کا مقابلہ کر رہے ہیں اور امریت وجمہوریت نام کی حکومتیں اج تک پاکستانی قوم کو لیڈ کر رہی ہیں ہر افات کے بعد کئی کہانیاں اٹھتی ہیں انہیں میڈیا سامنے لاتا ہے اخبارات الیکٹرانک سوشل تمام میڈیا پر جب یہ باتیں عوام کے سامنے ا جاتی ہیں تو پھر حکمران ان کو روکنے پر لگ جاتا ہے کہ یہ کیوں کر نکل کر ا رہی ہیں انہیں کیوں سامنے لایا جا رہا ہے وہ اس پر وقتی یا دیر پا قوانین کے ذریعے اپنے ذاتی اثر و رسوخ کے ذریعے دھونس دھاندلی کے ذریعے ایسی اوازوں کو دبا لیتا ہے اور پھر ایک نئے سانحے اور افت کے انتظار میں قوم لگ جاتی ہے پھر نوجوان دیکھ لیتے ہیں اور بوڑھے کہانیاں سناتے ہیں کہ ایسا ہوتا تھا ایسا کیوں ہوا پھر رو دھو کر اپنے گھروں کو دوبارہ بنانا شروع کر دیتے ہیں اور جب پھر پاؤں پر کھڑے ہوتے ہیں تو ایسی افتیں اتی رہتی ہیں پاکستانی قوم کی وسیع رائے ہے کہ مسلسل دو جماعتی نظام اور اقتدار ایک مٹھی میں سمٹ جانے سے مٹھی بھر یا چند افراد قوم کی تقدیر کے مالک بن بیٹھے ہیں باقی کچھ بھی نہیں بچا جو اس 24 کروڑ کی قوم کو عزت و وقار کے ساتھ قوموں کی صف میں کھڑا کر سکتا حکمران بھی محض فوٹو سیشن اور اس کی بیوروکریسی بھی ٹک ٹاک بنا کر گزارا کر رہی ہے کیونکہ وہ بیروکریسی اب ان سیاست دانوں کی طرح ایک خاندان کی شکل اختیار کر چکی ہے اس میں تمام فیصلہ کن شعبوں میں وہ خود موجود ہیں انہی کے خاندان کے افراد موجود ہیں جو حکمران یہاں پر ہیں اقتدار ان کے پاس ہے اختیار ان کے پاس ہے طاقت ان کے پاس ہے لیکن ان کی دولت ملک سے باہر موجود ہے وہ انتظار میں رہتے ہیں کہ کب ریٹائر ہوں گے اور باہر جا کر ارام سکون سے اس دولت کے بل بوتے پر اپنے اور اپنے کنبے کی نو سنوار کر زندگی ارام و سکون سے گزاریں گے ذکر کسی اور طرف چل پڑا ہے دریاؤں کے کنارے حکومت شہری ابادیوں سرکاری انفراسٹرکچر اور وسیع کاشتہ رقبہ کو محفوظ رکھنے کے لیے دریاؤں کے کنارے سپربند حفاظتی بند سٹڈ کے طور پر کہیں سیریز کی شکل میں اور کہیں انفرادی طور پر نندی پور ماڈل سٹڈی کے ذریعے تجربے کے بعد انہیں انسٹال کیا جاتا ہے لیکن قیام پاکستان سے ہی چونکہ قوانین بتدریج کمزور ہوتے گئے کر دیے گئے تاکہ وہ حکمران مزے سے حکمرانی کرتے رہیں اور بیرونی قرضے اور امدادوں پر جن کے بارے میں قوم پوچھ بھی نہ سکے پوچھنے پر ان کے خلاف مقدمات قائم کر دیے جائیں کا سکہ چلا کر وہ اج تک گامزن ہیں اسی مقولے کی بنیاد پر ان حفاظتی بندوں کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے جاگیردار اور بڑی زمینیں رکھنے والے اپنے وسائل اور مقامی افراد کے تعاون سے دریاؤں کے رخ موڑنے اور وقتی طور پر دریائی پانی سے فصلات کو بچانے کے لیے زمندارہ بند بنا کر کاشتہ فصلوں کو برداشت کر رہے ہیں اور اس سے مستفید ہو رہے ہیں ان کی زیادہ تر تعداد پنجاب اور سندھ میں ہے اس کو ایک نظر قانونی نقطہ نگاہ سے دیکھ لیتے ہیں کہ اس ک پس منظر کیا ہے کہ پنجاب کے پانچوں بڑے دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب، راوی اور ستلج) کے کنارے ہر سال "زمندارہ بند” کے نام سے پشتے تعمیر کیے جاتے ہیں۔ یہ بند عموماً بڑے زمیندار اور جاگیردار اپنی زمینوں اور فصلوں کو بچانے کے لیے بناتے ہیں۔ ان کی تعمیر کے لیے سرکاری اجازت نامہ شاذونادر ہی حاصل کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر یہ بند محکمہ انہار کی چشم پوشی اور مقامی سیاسی دباؤ کے نتیجے میں کھڑے کر دیے جاتے ہیں۔زمندارہ بند کیوں باندھے جاتے ہیں؟اس کی چیدہ چیدہ مثالیں زمینوں اور فصلات کا تحفظ بڑے زمیندار اپنی قیمتی زمینیں اور لاکھوں روپے کی فصلیں محفوظ کرتے ہیں۔جن سے چھوٹے کسان بھی وقتی فائدہ اٹھاتے ہیں ،اگرچہ اصل فائدہ بڑے جاگیردار کو ہوتا ہے لیکن چھوٹے زمیندار بھی عارضی طور پر محفوظ رہتے ہیں۔اس بنا پر سیلابی پانی کے دباؤ کا رخ موڑنا کئی بار ان بندوں کے باعث پانی کا دباؤ قریبی بستیوں یا زمینوں پر منتقل ہو جاتا ہے، جس سے غریب کسان اور دیہات شدید نقصان اٹھاتے ہیں۔اور اٹھا رہے ہیں حالیہ سیلاب میں وسیع پیمانے پر دیہی ابادی متاثر ہوئی ہے کیونکہ دیہات میں سولر سسٹم لگنے سے جو ابادی شہروں کو شفٹ ہو رہی تھی اس میں کافی حد تک کمی ائی ہے اور دیہات کا حجم ایک بار پھر بڑھ چکا ہےزمندارہ بند ہر سیلاب پر کیوں ٹوٹتے ہیں؟یا انہیں کیوں توڑا جاتا ہےمحکمہ انہار اور ضلعی انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ ان بندوں کی وجہ سے اصل حفاظتی پشتوں پر دباؤ بڑھ جاتا ہے۔جو ان سرکاری انفراسٹرکچر کو توڑنے کا سبب بنتا ہے اس لیےبڑے سیلابی ریلوں کے وقت ان بندوں کو جان بوجھ کر توڑ دیا جاتا ہے تاکہ سرکاری ڈھانچے بچ جائیں۔
نقصان کا زیادہ بوجھ غریب کسانوں اور عام آبادی پر پڑتا ہے، جبکہ اصل مقصد بڑے جاگیرداروں کی زمینوں کو بچانا ہوتا ہے۔یہی وہ کاریگری ہے جس کے دباؤ تلے اج تک محکمہ انہار خاموش ہے یا خاموش کرا دیا جاتا ہے کیونکہ کوئی قانون محاسبے کا موجود ہی نہیں ائیں دیکھتے ہیں کہ یہ کب سے وجود میں ائےزمندارہ بند کی تاریخ برصغیر دور، بڑے زمیندار بند باندھتے تھے مگر برطانوی حکومت سختی سے کارروائی بھی کرتی تھی۔
1947 کے بعد، قیام پاکستان کے وقت محکمہ انہار نے قوانین برقرار رکھے مگر عملدرآمد کمزور پڑ گیا۔کیونکہ کوئی بھی حکمران نہیں چاہتا تھا کہ اس سلیبس کو چھیڑا جائے اس کی بنیادی وجہ اسمبلیوں میں اب بھی جاگیرداروں کی تیسری نسل موجود ہے1973 کے بعد صوبوں کو اختیارات ملے مگر زمندارہ بند پر کوئی الگ قانون نہ بنایا جا سکا۔نہ ہی کسی ممبر اسمبلی نے کبھی اسمبلی میں اواز اٹھائی اسمبلیوں کی تاریخ گواہ ہے کہ ایسی ریکوزیشن کہیں بھی موجود نہیں ہے جو ان بندوں سے عام ادمی کو بچانے کے لیے کہ یہ ٹیکنیکل بنیادوں پر بنایا جائے ایسے نہ بنا دیے جائیں موجود ہو1990 کی دہائی ،جاگیردارانہ اثر و رسوخ بڑھنے سے یہ رجحان زیادہ عام ہوا۔2010 اور ,20252014، کے سیلاب: ان بندوں کے ٹوٹنے سے لاکھوں ایکڑ زمین زیر آب آئی، لاکھوں لوگ متاثر ہوئے۔اس میں محکمہ انہار کا کردار کس قدر ہے اصولی طور پر محکمہ انہار کسی بھی غیر قانونی بند کی اجازت نہیں دیتا۔عملی طور پر بااثر طبقے کے دباؤ اور سیاسی مداخلت کے باعث محکمہ انہار اکثر خاموش رہتا ہے۔فنی طور پر یہ بند کسی انجینئرنگ اسٹڈی یا سروے کے بغیر بنائے جاتے ہیں، جس سے خطرہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔زمندارہ بند کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ
پنجاب بھر میں سرکاری سطح پر ان بندوں کا کوئی مکمل ریکارڈ نہیں۔میڈیا رپورٹس اور ماہرین کے مطابق دریائے چناب، جہلم اور سندھ پر 200 سے زائد زمندارہ بند قائم ہیں۔
2010 سیلاب،صرف جنوبی پنجاب میں 15 لاکھ ایکڑ رقبہ زیر آب آیا۔2014 سیلاب، دریائے چناب پر 50 سے زائد زمندارہ بند ٹوٹے، وسیع تباہی ہوئی۔مگر اج 2025 تک درمیان میں کسی نے اس سے سبق حاصل نہیں کیا نہ قانون سازی ہوئی نہ ایسے بند بنانے کو روکا گیاسیلاب اور زمندارہ بند
2010، زمندارہ بند ٹوٹنے سے جنوبی پنجاب میں 15 لاکھ ایکڑ رقبہ ڈوبا۔اگر یہ کسی مہرانہ سٹڈی کے بعد بنائے جاتے تو نہ اتنا رقبہ سیراب ہوتا نہ اتنے افراد ڈس لوکیٹ ہوتے اور نہ نقصان ہوتا2014،دریائے چناب کے کنارے 50 زمندارہ بند تباہ ہوئے۔2025،پنجاب بھر میں اب بھی 200 سے زائد غیر قانونی زمندارہ بند موجود ہیں۔
اپنے دو ایکڑ بچانے کے لیے چھوٹا کاشتکار اس بڑے زمیندار کا ساتھ دیتا ہے ایسے بند بنانے کے لیے جس کے لیے
قوانین اور پالیسی واضح نہیں
پاکستان میں زمندارہ بند کے حوالے سے کوئی واضح اور علیحدہ قانون نہیں بنایا گیا۔ صرف پرانے انہار کے قوانین ہی بنیاد ہیں زمندارہ بند اور قوانین میں پنجاب اریگیشن ایکٹ 1873 دریاؤں اور نہروں پر غیر قانونی پشتوں پر پابندی مگر کمزور عملدرآمد۔
کینالسز اینڈ ڈرینج ایکٹ
پانی کے قدرتی بہاؤ میں رکاوٹ ڈالنے والے اقدامات کو غیر قانونی قرار دیتا ہے، مگر زمندارہ بند کا براہ راست ذکر نہیں۔ عملدرآمد کی حقیقت قیام پاکستان کے بعد سے اب تک زمندارہ بند کے خلاف کوئی مستقل قانون سازی نہیں ہوئی۔ موجودہ سزائیں اور جرمانے بہت کمزور اور غیر مؤثر ہیں۔
اس کے لیے ایسی تجاویز صوبائی و قومی اسمبلی کے ذریعے منظور کرائی جائیں جو
زمندارہ بند کے لیے علیحدہ اور جدید قانون کی حیثیت رکھتے ہوں جن میں سخت سزائیں اور بھاری جرمانے مقرر ہوں۔غیر قانونی بندوں کا فوری انہدام کیا جائے۔کسی بھی بند کی تعمیر محکمہ انہار اور ماہرین کی سفارشات کے بغیر نہ ہو۔کیونکہزمندارہ بند اور قوانین (1873–2025) سے حاصل ہوتا ہے کہ1873، پنجاب انہار ایکٹ منظور، غیر قانونی بندوں پر پابندی۔1947، پاکستان نے وہی قانون اپنایا مگر عملدرآمد کمزور پڑ گیا۔1973، آئین کے بعد صوبوں کو اختیارات ملے مگر زمندارہ بند پر قانون سازی نہ ہوئی۔2010، سیلاب کے دوران درجنوں زمندارہ بند ٹوٹے، جنوبی پنجاب میں 15 لاکھ ایکڑ رقبہ ڈوبا۔2014، چناب پر 50 بند ٹوٹے، بڑے پیمانے پر نقصان،2022، فلڈ مینجمنٹ کے تحت نئی تجاویز آئیں مگر کوئی نیا قانون نہ بنا۔
2025 ، حالیہ سیلاب نے دوبارہ اس مسئلے کو اجاگر کر دیا، میڈیا اور سول سوسائٹی قانون سازی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔کیونکہ اس سے عام ادمی کا سب سے زیادہ نقصان ہوتا ہے جسے وہ سالہا سال پورا نہیں کر سکتا اور غربت کی لکیر سے نیچے چلا جاتا ہےزمندارہ بند وقتی طور پر بڑے زمینداروں کو فائدہ دیتے ہیں مگر مجموعی طور پر عوام کے لیے تباہ کن ہیں۔ یہ سیلابی دباؤ کو بستیوں کی طرف موڑتے ہیں، محکمہ انہار ان پر خاموش رہتا ہے اور قوانین ناقص ہیں۔ جب تک حکومت سخت قانون سازی نہیں کرتی، ہر آنے والا سیلاب تباہی کے نئے مناظر لاتا رہے گا۔