جمہوریت کی بقا یا بربادی؟ عوامی مینڈیٹ اور ادارہ جاتی توازن کے درمیان سوالیہ نشان بند کر رہ گئی ہے یہی وجہ ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام عروج پر ہے اور معاشی بدحالی ہمیں گھیر رکھا ہے کیونکہ پاکستان کی 78 سالہ سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ ہر بڑے موڑ پر قوم کو یہ سوال درپیش رہا ہے، کیا ملک مفاہمت سے آگے بڑھے گا یا مزاحمت ہی واحد راستہ ہے؟ ایوب خان کے خلاف عوامی مزاحمت سے ذوالفقار علی بھٹو کا عروج، جنرل ضیاء الحق کے غیر جماعتی انتخابات سے مسلم لیگ ن کی پیدائش، چارٹر آف ڈیموکریسی کے نام پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی باری باری حکومتیں، بے نظیر بھٹو کی شہادت، نواز شریف کا "ووٹ کو عزت دو” کا نعرہ، اور اب عمران خان کی قید و احتجاج ، سب نے یہی سوال تازہ کیا ہے۔ تمام باتوں سے قومی لیڈر سبق حاصل نہ کر سکے اور عوام تختہ مشق بنی ہوئی ہے جس کے لیےتاریخ کا آئینہ یہ انداز ظاہر کرتا ہے کہ ایوب خان کے خلاف مزاحمت نے بھٹو کو ابھارا، جنرل ضیاء الحق کے غیر جماعتی انتخابات نے مسلم لیگ ن کو جنم دیا، اور 2006 کا چارٹر آف ڈیموکریسی وقتی مفاہمت کا نشان بنا مگر ادارہ جاتی ڈھانچے کو مضبوط نہ کر سکا۔جو پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کو اقتدار کی سیڑھی تک لے جاتا رہا اور بے ساتھیوں کے ذریعے وہ حکومت کرتے رہے لیکن ملک میں معاشی ترقی نہ ائی کثیر المقاصد منصوبے ترتیب نہ پائے صرف موٹرویز اور میٹرو ٹرین میٹرو بسیں رولر ایریا میں بجلی اور سرکار کو دکھا کر کسانوں سے ان کی فصلیں اٹھا لی جاتی رہیں جو ویپاریوں کے ہاتھوں پھر مہنگے داموں اسی کی سان کو دی جا رہی ہیں اور ایک بڑی ابادی جو 8 فیصد دیہات میں رہتی ہے اسے بالکل نظر انداز کر کے تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا جو اب کسی قدرتی افت کا مقابلہ کرنے کے بھی قابل بھی نہیں رہے اسے تھانیدار اور پٹواری کے اس برٹش دور کے کلچر کے اندر ہی دفن کر کے رکھ دیا گیا ہے
بے نظیر بھٹو کی شہادت نے مفاہمتی پالیسی کو ختم کیا اور عوامی اعتماد ٹوٹ گیا۔
تاریخ یہ بتاتی ہے کہ مفاہمت وقتی امن ضرور لاتی رہی لیکن زیادہ تر ادارہ جاتی کمزوری کو چھپانے کا سبب بنی۔جس کا خمیازہ قوم اج بھی بھگت رہی ہے جوموجودہ منظرنامہ میں بھی عیاں ہےتحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی سوا دو سالہ قید اور پارٹی قیادت پر مقدمات نے سیاست کی گرمی کو انتہا پر پہنچا دیا ہے۔
فارم 45 اور فارم 47 کے تنازع نے 2024 کے انتخابات کو غیر شفاف بنا دیا، جس پر کروڑوں عوام سوال اٹھا رہے ہیں26ویں آئینی ترمیم نے عدلیہ کی طاقت کو محدود کر دیا، جسے ناقدین جمہوریت پر کاری ضرب قرار دے رہے ہیں۔اتحادی حکومت عوامی حمایت کے بجائے ادارہ جاتی جبر پر کھڑی ہے، جب کہ عوامی سروے اب بھی عمران خان کو مقبول قرار دے رہے ہیں۔اس سے اس انداز میں بھی دیکھ لیتے ہیں
مفاہمت بمقابلہ مزاحمت
مفاہمت وقتی امن اور معاشی روابط کی بحالی دیتی ہے مگر عوامی مینڈیٹ کا نقصان اور ادارہ جاتی کمزوری اس کا سب سے بڑا خطرہ ہے۔مزاحمت کا راستہ آئینی و قانونی جنگ، پرامن احتجاج، شفاف انتخابات کا مطالبہ اور بین الاقوامی مبصرین کی شمولیت ہےتاریخی طور پر جب مفاہمت جمہوری اداروں کو مضبوط نہ کر سکی تو مزاحمت ہی حقیقی سیاسی اور آئینی بحالی کا سبب بنی۔
سیاسی میدان میں اہم سنگ میل عناصر جنہیں نظر انداز کیا جاتا رہا ان کا اجمالی خاکہ
1970: ذوالفقار علی بھٹو "روٹی، کپڑا، مکان”
1985،جنرل ضیاء الحق کے غیر جماعتی انتخابات
2006،چارٹر آف ڈیموکریسی ن لیگ + پیپلز پارٹی،2007، بے نظیر بھٹو کی شہادت
2018،عمران خان کی حکومت
2022، تحریک عدم اعتماد سے پی ٹی آئی حکومت کا خاتمہ
2024: فارم 45/47 تنازع، متنازع انتخابات یہاں بھی وہی عوامل ہیں کہ جنہیں فرد جرم لگنی تھی انہیں وزیراعظم بنا دیا گیا جنہیں سزائیں دی گئی جائیداد ضبط کی گئی وہ علاج کے بہانے باہر چلے گئے لیکن جب واپس لوٹے تو ان کے لیے ایئرپورٹ پر ہی تمام محکمے ان کے اگے کھڑے کر دیے گئے جو قوم کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ ہم کس طرح سے سیاسی سسٹم پر اعتبار کریں یہی سوچ کر اج کا 65 فیصد نوجوان جو ملک میں چھ کروڑ کی تعداد میں موجود ہے وہ اپنے ہاتھوں میں ڈگری لیے ہنر مندی کی سرٹیفیکیٹس لیے بے روزگاری کی دلدل میں دھنس چکا ہے اور مزدوری کے لیے لائنوں میں لگا ہوا ہے پاکستانی سیاسی سسٹم کو بدلنے کے لیے اس نوجوان کا ہی اب کردار ہوگا اور جو فیصلہ یہ نوجوان کریں گے جیسا کہ بھی سو 24 کے الیکشن میں انہوں نے کر کے دکھایا وہی بہتر عوامی حمایت سے جماعت اقتدار میں ائے گی تب مسائل حل ہوں گے اور ملک ترقی کرنے کے قابل ہو جائے گا قرضوں کے بوجھ بھی ٹوٹے گا اور بے روزگاری کا خاتمہ بھی ممکن ہوگا،پاکستانی قوم کے سامنے سوال آج بھی وہی ہے جو کل تھا: کیا ہم بار بار کی مفاہمت سے وقتی سکون پر اکتفا کریں گے یا آئینی مزاحمت کے ذریعے جمہوریت کو شفاف اور پائیدار بنائیں گے؟اگر مفاہمت آئینی اصول، آزاد عدلیہ اور شفاف انتخابات کی بنیاد پر ہو تو یہی جمہوریت کا تحفظ ہے۔ بصورت دیگر، پرامن مزاحمت ہی واحد راستہ بچتا ہے پرامن مزاحمت جمہوریت کا حسن ہوتا ہے جو نئے انے والے حکمرانوں کی عوام میں بولیت کو بھی ٹیسٹ کر لیتا ہے اور دنیا میں بھی اس طرح کے ایجیٹیشن سے دکھایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں بھی جمہوری سسٹم موجود ہے جو اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر ملکی بھاگ ڈور سنبھالتے ہوئے اپنے فیصلے خود کر کے ایک بہتر حکمرانی ترتیب دے سکتا ہے یہ جذبہ ان ان کے بغیر اور کوئی حل ممکن نہیں اس لیے مفاہمت کے دروازے بند کیے جائیں بلکہ ڈائیلاگ کو جاری رکھا جائے تاکہ کسی وسیع مزاحمت سے محفوظ رہ کر ملک کو مزید نقصان دیے بغیر ایک متفقہ بہتر قومی حمایت کی حامل حکمران جماعت سامنے ائے اور حق حکمرانی عوامی تائید و حمایت سے کرے جو واحد حل ہے مسائل کے حل کا………………………………………………….