بھکر پولیس نے گاڑی کو روکتے ہوئے وضاحت دی کہ اسے ٹریکر کمپنی کی ہدایت پر روکا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک گاڑی کے مالک سے رابطہ نہ ہو، گاڑی پولیس کسٹڈی میں رہے گی۔ ہم نے گاڑی کو ایک قریبی ورکشاپ میں کھڑا کروایا اور تھانہ بھکر کا رخ کیا۔
وہاں ڈی پی او بھکر سے ٹیلی فون پر بات ہوئی، اور پھر ٹریکر کمپنی سے بھی رابطہ کیا۔ اس تمام عمل میں آدھا دن گزر گیا۔ خوش قسمتی سے گاڑی کی مرمت مکمل ہو چکی تھی، تو ہم سہ پہر کے وقت واپس لیہ روانہ ہوئے۔
واپسی کے بعد ہاؤسنگ کالونی لیہ میں "اخبارِ لیہ” کا دفتر قائم کیا۔ انہی دنوں مجلس وحدت المسلمین کے مرکزی قائدین لیہ آئے۔ انہوں نے ہمارے دفتر میں ایک پریس کانفرنس رکھی۔ جیسے ہی سوشل میڈیا پر اس کی خبریں نشر ہوئیں، شام تک مختلف سرکاری اداروں کی ٹیلی فون کالز اور معلوماتی سوالات کا تانتا بندھ گیا۔ ہر طرف سے رپورٹس اور ڈیٹیلز مانگی جا رہی تھیں۔
ان دنوں میں نے اسکول سے الگ ہو کر ایک پرائیویٹ سیڈ کمپنی کے ساتھ وابستگی اختیار کر لی اور روزی روٹی کا بندوبست شروع کیا۔ کیونکہ صحافت سے مالی اخراجات پورے کرنا مشکل تر ہوتا جا رہا تھا۔ یہاں آمدن تو تھی نہیں، الٹا جیب سے ہی صحافت پر خرچ ہو رہا تھا — جو ہماری استطاعت سے باہر ہونے لگا تھا۔
فیصل مجیب شامی سے تنظیمی تعلق بنا، اور انہی کے توسط سے مجھے روزنامہ یلغار لاہور سے منسلک کر دیا گیا، جس کا رشتہ آج بھی قائم ہے۔
ادھر رائل نیوز اپنی آب و تاب سے جاری تھا کہ چینل کے مالکان کے درمیان باہمی اختلافات شدت اختیار کر گئے۔ قانونی جنگ کا آغاز ہوا۔ اس کے نتیجے میں ایک نیا ادارہ "TV Today” کے نام سے وجود میں آیا، جس کے بانی میاں ظہور وٹو تھے، اور وہ میاں عبدالغفور وٹو (مرحوم) کے بھائی تھے۔
افسوسناک بات یہ ہوئی کہ میاں عبدالغفور وٹو اس دوران انتقال کر گئے۔ چینل کی باگ ڈور ان کے بیٹوں نے سنبھالی اور نئی پالیسیاں تشکیل دیں۔ انہی حالات میں احمد معاذ ڈوگر نے رائل نیوز چھوڑ کر TV Today جوائن کر لیا — اور ہمیں بھی ساتھ لے گئے۔
TV Today نے اچھا آغاز کیا۔ علاقائی بلٹنز کی تعداد میں اضافہ ہوا جس سے ہماری خبروں کی کوریج بھی نمایاں طور پر بڑھ گئی۔ یہاں بھی، خبروں کے نشر ہونے سے مقامی سطح پر پذیرائی ملی۔
سال 2020ء میں عالمی وبا کورونا نے دنیا بھر کی طرح پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ عوام گھروں میں محصور، مارکیٹیں بند، اور ہر طرف خوف کی فضا تھی۔ اس وقت وزیراعظم عمران خان کی حکومت تھی اور ہر طرف موت کی خبریں، احتیاطی تدابیر، ہاتھ نہ ملانا، ماسک پہننا، اور مسلسل ہدایات میڈیا کا موضوع تھیں۔ہم پر بھی ایک خوف اور بےچینی طاری رہنے لگی۔ایک رات رات 10 بجے کے قریب ڈپٹی کمشنر اظفر ضیاء کا فون آیا کہ میڈیا نمائندگان فوری طور پر دفتر پہنچیں تاکہ عوام تک آگاہی کا پیغام پہنچایا جا سکے۔ جب ہم دفتر پہنچے تو وہاں ایم پی اے رفاقت شاہ گیلانی، ایم پی اے طاہر رندھاوا، اور ڈی سی اظفر ضیاء موجود تھے۔ سب لوگ پریشان اور غیر یقینی صورتحال کا شکار تھے۔ہمیں حکومتی احتیاطی پیغامات عوام تک پہنچانے کی ذمے داری دی گئی۔
اگلے دن سید رفاقت شاہ گیلانی نے فون کر کے کہا کہ 10 مستحق افراد کے نام دیں تاکہ انہیں راشن بیگز فراہم کیے جا سکیں۔ میں اپنے گاؤں گیا اور وہاں سے 10 افراد کے ناموں کے ساتھ ان کو لے کر آیا، اور خود ان کے ہاتھوں میں راشن بیگز دلوائے۔
اسی دوران ایک سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ لڑکی نے رابطہ کیا۔ اس نے کہا کہ وہ میرے چک میں بیس افراد کو راشن دینا چاہتی ہے۔ میں اسے ساتھ لے گیا اور لشکری والا میں یہ راشن بیگز تقسیم کروائے۔ اس کے بعد مزید افراد وہاں پہنچنے لگے، راشن کے لیے۔
گھر والوں نے مشورہ دیا کہ ہم بھی کچھ مالی حصہ ڈالیں اور اپنی طرف سے راشن بیگز بنائیں۔ چنانچہ تقریباً 100 راشن بیگز تیار کیے گئے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ یہ کس کو دیے جائیں؟ ایک نوجوان کے مشورے پر طے پایا کہ یہ اپنے گاؤں کے مزدور طبقے میں تقسیم کیے جائیں — جن کے حالات ہم سب کو معلوم تھے۔
ان دنوں ملک مقبول الٰہی کے ہمراہ میری ملاقات سید عثمان شاہ (روزنامہ سنگِ بے آب) سے ہوئی۔ انہوں نے مجھے اخبار کے ساتھ باقاعدہ منسلک ہونے کی دعوت دی، جو میں نے قبول کر لی۔
ان کی مشاورت سے ہم نے روزنامہ سنگِ بے آب میں "کورونا آگاہی مہم” کے لیے مختلف اداروں اور شخصیات سے پیغامات لینے اور انہیں روزانہ کی بنیاد پر شائع کرنے کا آغاز کیا۔ ہم نے:ادارہ جاتی سربراہان،سیاسی و سماجی شخصیات،محکمہ صحت،ضلعی انتظامیہ،تعلیم، پولیس، ریسکیو سے رابطے کیے، پیغامات حاصل کیے اور روزانہ اخبارات میں خصوصی صفحات شائع کیے۔
اس دوران ہم نے نہ صرف اپنی صحافتی ذمے داری نبھائی بلکہ عوامی شعور بیدار کرنے میں بھی فعال کردار ادا کیا۔ اس طرح کورونا وبا کے دوران، صحافت صرف خبر تک محدود نہ رہی بلکہ عوامی خدمت اور سماجی رابطہ کاری کا ذریعہ بھی بنی۔
تحریر :محمد کامران تھند