
کہتے ہیں شہروں کی پہچان صرف بلند و بالا عمارات، چوڑی شاہراہوں یا بڑے اداروں سے نہیں ہوتی بلکہ اصل شناخت قلم و کتاب، فکر و دانش اور تصنیف و تالیف سے بنتی ہے۔ تاریخ میں وہی شہر اور قومیں زندہ رہتی ہیں جنہیں اہلِ فکر و نظر میسر آتے ہیں۔ ارسطو، افلاطون، شیکسپیئر، سعدی، اقبال اور فیض جیسے نام آج اپنے جسمانی وجود کے بغیر بھی زندہ ہیں کیونکہ ان کے افکار و آثار نے ان کے شہروں اور وطنوں کو دائمی پہچان عطا کر دی ہے۔
اسی تناظر میں اگر ہم اپنی سرزمین لیہ کی طرف نگاہ ڈالیں تو جناب نور محمد تھند مرحوم کی شخصیت نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ اگرچہ ان کا تعلق ایک بڑی زمیندار اور سیاسی برادری سے تھا، جہاں بڑے بڑے نامور لوگ گزرے ہیں، مگر وہ سب مقامی دائرے سے آگے بڑھ نہ سکے۔ نور محمد تھند نے قلم، تحقیق اور فکر کے ذریعے لیہ کو ایسا سرمایہ عطا کیا جس نے انہیں "لیہ کا لیجنڈری کردار” بنا دیا۔
نور محمد تھند کی زندگی محنت، جدوجہد اور خلوص سے عبارت تھی۔ سکول کے زمانے ہی سے وہ مباحثوں، تقریروں اور مضمون نویسی میں سرگرم رہے اور انعامات و اعزازات اپنے نام کرتے رہے۔ سماجی علوم، بالخصوص تاریخ، ان کا پسندیدہ میدان تھا۔ یہی شوق آگے چل کر ان کے علمی ورثے کی بنیاد بنا۔ ان کی علمی خدمات میں سب سے نمایاں کارنامہ "تاریخِ لیہ” ہے۔ یہ کتاب محض ایک تاریخ نہیں بلکہ لیہ کی تہذیبی، سماجی اور فکری زندگی کا آئینہ ہے۔ اس میں لیہ کے نام کی وجہِ تسمیہ، حکمرانوں، ذات برادریوں، پیشوں، تعلیم و ادب، سیاست، عبادت گاہوں اور زراعت تک کے ہر پہلو کو تفصیل کے ساتھ درج کیا گیا۔ بعد میں اگرچہ کئی مصنفین نے لیہ کی تاریخ پر لکھا، مگر "تاریخِ لیہ” آج بھی بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔

نور محمد تھند کی تحریروں میں ایک محقق کی باریک بینی اور ایک نقاد کی ژرف نگاہ نمایاں نظر آتی ہے۔ "مسلم لیگ کے سو سال” ان کی تحقیقی وسعت کا شاہکار ہے، جس میں انہوں نے کئی ایسے پہلو بے نقاب کیے جو اس سے پہلے پردۂ خفا میں تھے۔ ان کی یہ کاوش صرف تاریخ نویسی نہیں بلکہ تحقیق کے نئے دروازے کھولنے کے مترادف ہے۔ اسی طرح ان کی ایک اور اہم تصنیف "اولیائے لیہ” ہے، جو لیہ کی صوفیانہ روایت کا غیر جانبدار اور عقیدت آمیز تجزیہ ہے۔ اس کتاب سے اہلِ لیہ کے انسان دوستی، امن پسندی اور نمانڑے پن کا اندازہ ہوتا ہے۔ انہوں نے یہ پیغام دیا کہ لیہ صرف سیاست اور زمینداری کا گہوارہ نہیں بلکہ روحانیت اور اخوت کی بھی سرزمین ہے۔
تھند صاحب کا علمی دائرہ صرف لیہ تک محدود نہیں تھا بلکہ انہوں نے ضلع بھکر کی تاریخ کو بھی خلوص کے ساتھ قلم بند کیا۔ "تاریخِ بھکر” ان کی تحقیقی کاوشوں کا ایک روشن حوالہ ہے، جس میں انہوں نے اس خطے کی تہذیبی اور تاریخی اہمیت کو اجاگر کیا۔ تھل کے اس علاقے سے ان کی محبت اور عقیدت صاف جھلکتی ہے اور یہی ان کی شخصیت کی وسعت کا ثبوت ہے۔ اسی طرح ان کی ایک اور منفرد اور دل کو چھو لینے والی کاوش "ماں” کے مقدس رشتے پر کتاب ہے، جسے جنرل ریٹائرڈ عبدالعزیز طارق مرانی کی تحریک پر لکھا گیا۔ یہ کتاب ان کی ہمہ گیر تخلیقی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے اور اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ وہ ہر موضوع پر بڑی سہولت اور مہارت کے ساتھ لکھنے کی قدرت رکھتے تھے۔
نور محمد تھند مرحوم کی شخصیت ایک ہمہ جہت دانشور، محقق اور صاحبِ طرز مصنف کی تھی۔ وہ لیہ کے ادبی و فکری ورثے کا روشن چراغ ہیں۔ ان کا کام آنے والی نسلوں کے لیے نشانِ راہ ہے۔ ایسے لوگ وقت کے ساتھ جسمانی طور پر رخصت ضرور ہوتے ہیں مگر ان کے خیالات اور تصانیف ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں انہیں پورے اعتماد کے ساتھ "لیہ کا لیجنڈری کردار” کہتا ہوں۔